اندر کی گندگی دہن سے اگلتے ’’لوگ‘‘ ……حیدر جاوید سید
بلقیس خود کو بلقیس خانم کہلوا کر خوش ہوتی تھیں ۔ دہائیوں قبل ان سے ایک ملاقات میں ڈھیروں باتیں ہوئیں ان سے باتوں کے دوران ہی گلی میں اچھلتی کودتی ایک کالی کھڑکی کے اِس اور کمرے میں گونجی تو وہ بے ساختہ بولیں ’’آدمی گالی تب دیتا ہے جب خود گالی بن جائے ‘‘۔
یہ سوشل میڈیا پر ہونے والی چھوٹی موٹی لڑائیاں نجانے کب ذاتی حملوں اور خواتین کو رگیدنے میں تبدیل ہوجائیں کچھ پتہ نہیں لگتا۔ ہمارے معاشرے میں خاتون کو گالی دینا سب سے آسان ہے۔ آپ انڈس ویلی میں بولی جانے والی مقامی زبانوں اور 1947ء میں ہجرت کرکے آئی زبانوں کے ٓذخیروں کو کھنگال کر دیکھ لیجئے، گالیوں اور دشنامی جملوں سے ان کے دامن بھرے ہوئے ہیں۔
مزید کھنگالیں گے تو جان لیں گے کہ ان ساری زبانوں میں 90 فیصد گالیاں خواتین کے واسطے سے دی جاتی ہیں یعنی کسی کو گالی دینا ہو تو ساتھ ہی اس کی ماں بہن بیٹی نانی دادی پر بھی چاند ماری شروع کردو۔ کبھی کبھی میں اس معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں (بازار حسن کی آبادیوں کے مکینوں) کے حوالے سے اپنے مطالعے مشاہدے اور ان آبادیوں میں نسلوں سے مقیم خواتین و حضرات سے گزشتہ ماہ و سال میں ہوئے مکالموں کی یادیں تازہ کرتا ہوں تو مجھے کراچی کے بازار حسن نیپئر روڈ (اب پتہ نہیں وہ کس حال میں ہے) میں مقیم اعضا کی شاعری میں یکتا (رقاصہ) بلقیس یاد آجاتی ہیں۔
بلقیس خود کو بلقیس خانم کہلوا کر خوش ہوتی تھیں ۔ دہائیوں قبل ان سے ایک ملاقات میں ڈھیروں باتیں ہوئیں ان سے باتوں کے دوران ہی گلی میں اچھلتی کودتی ایک کالی کھڑکی کے اِس اور کمرے میں گونجی تو وہ بے ساختہ بولیں ’’آدمی گالی تب دیتا ہے جب خود گالی بن جائے ‘‘۔
ایک بار میں نے ان سے پوچھا عمومی خیال یہ ہے کہ آپ کے علاقوں میں باقی سماج کے مقابلہ میں بدزبانی، گالم گلوچ وغیرہ کا رواج زیادہ ہے؟ بولیں آپ کب سے یہاں آرہے ہیں۔ میں نے کہا لگ بھگ دواڑھائی برسوں سے۔ انہوں نے پوچھا ان دواڑھائی برسوں کے دوران آپ نے کبھی ہمارے گھروں کے مردوں اور ملازمین کے منہ سے غصے کی حالت میں بھی گالی اور بالخصوص ماں بہن بیٹی کی گالی سنی؟ میں نے کہا جی نہیں۔
بلقیس خانم بولیں، ارے میاں کیا کہیں یہ پاکیزہ گلی محلوں کےباسی اپنے اندر کی گندگی دہن کے راستے اگلتے رہتے ہیں۔ ہم تو کسبیوں کو بھی کسبی نہیں کہتے یہ شرفا اچھی بھلی عزت دار، انہوں نے ساعت بھر کے لئے کھڑکی سے گلی کی طرف دیکھا اور پھر بولیں یہ عزت دار لوگ کب کس کی ماں بہن کو گالی دے دیں اور کب محض ناراضگی پر کسی خاتون کو بیسوا اور بیسوا زادی کہہ دیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔
عزت داروں کے ہاں گالم گلوچ ایک فن ہے۔ ہمارے گلی محلوں اور چوباروں میں کوئی غصے میں گالی دے بھی تو بند کمرے میں دیتا ہے ہمیں اپنا کاروبار بہت عزیز ہے۔ عام باتوں میں شرفا کی طرح گالم گلوچ کریں گے تو رقص دیکھنے کوئی نہیں آئے گا۔
میں کچھ کہنا چاہتا تھا انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور بولیں سید زادے ہمارے ہاں شریف گھرانوں والے چونچلوں اور گالیوں کا رواج نہیں ہے ہمارے کاروبار کی ساکھ فن سے قائم ہے مگر اس ساکھ کا عملی نمونہ اور چہرہ ہمارا اخلاق ہے۔
میں بلقیس خانم سے برسوں ملتا رہا ان سے ملاقاتوں یا یوں کہہ لیجئے ان سے تعارف کا ذریعہ ان کا چھوٹا بھائی تہذیب جمال تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ تہذیب جمال سے تعارف کراچی کے لیرک سینما میں فلم دیکھنے کے دوران ہوا تھا۔
سینما ہال میں ہوا یہ تعارف دوستی میں تبدیل ہوا۔ تہذیب ان دنوں سٹی کالج ناظم آباد میں سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ 1979ء میں اپنی مہربان اور شفیق بہن کے سانحہ ارتحال کے کچھ عرصہ بعد وہ ملک چھوڑ کر چلا گیا۔
تہذیب اکثر کہا کرتا تھا یار حیدر! یہ ملک رہنے بسنے کے قابل نہیں۔ پھر بھرائی آنکھوں سے کہتا یار حیدر ! تم ہی بتائو اگر میں دہلی کے بازار حسن سے نیپئر روڈ کراچی آبسنے والی عظمت بائی کا نواسہ ہوں تو اس میں میرا قصور کیا ہے؟
تہذیب، اس کی والدہ محترمہ اور بہن بلقیس سے میں نے دہلی سے نیپئر روڈ کراچی تک کے سفر و قیام کی درجنوں کہانیاں سنیں۔ البتہ ان کے منہ سے کبھی کسی کا شکوہ سنا نہ ناشکری کا جملہ۔ وہ اپنے حال میں خوش و خرم تھے ۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ آج کے کالم میں شاہ کیسی باتیں قصے کہانیاں لے کر بیٹھ گیا۔ میں اس کی وجہ عرض کئے دیتا ہوں۔
چند دن اُدھر اسلام آباد کے ایک بڑے کتاب فروش کے حوالے سے ایک معاملہ سوشل میڈیا پر آیا اس سے اگلے دن ایک معروف کالم نگار نے اس کتاب فروش کے موقف کو اپنے کالم میں بیان کیا اور اس خریدار کے موقف کو جھوٹ قرار دیا لیکن پھر یہ ہوا کہ جس خریدار نے کتاب فروش اور اس کے عملے کی بدتہذیبی اور دیگر معاملات پر سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھی تھی اس نے کالم کی اشاعت کے بعد خریداری کی رسیدوں کے ساتھ ایک ویڈیو میں نہ صرف اپنا موقف ثابت کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ جو کتابیں خریدی گئیں وہ غیرملکی نہیں بلکہ مقامی کتب تھیں۔
اس وضاحت کے بعد معروف کالم نگار نے سوشل میڈیا پر ایک معذرتی پوسٹ لکھی اور اعتراف کیا کہ کتب فروش نے انہیں غلط معلومات دیں وہ اپنے پڑھنے والوں سے معذرت خواہ ہیں اور یہ کہ میں نے کالم کتابوں سے اپنی محبت میں لکھا تھا میں چاہتا ہوں کہ کتابوں کی دکانیں آباد رہیں۔
گو ان کی یہ جذباتی باتیں سال بھر قبل کے ایک تنازع کی وجہ سے درست نہیں تھی جب انہوں نے خود لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے اور بک سیلر کے خلاف کالم لکھ مارا تھا۔
بہرحال ان کے کالم اور معذرت کے درمیانی عرصے میں سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر رونق لگ گئی۔ اسلام آبادی کتب فروش کی دکان پر پچھلے چند سال کے دوران ہوئے نامناسب سلوک کے ساتھ کچھ دوسری باتیں بھی لکھی جانے لگیں اسی جاری جنگ کے دوران اردو کے عصر حاضر میں "سب سے بڑے” ادیب جو آجکل ایک مذہبی رہنما کے ٹھیکیدار ہیں نے چھلانگ لگائی اور سوشل میڈیا پر اپنی تحریر میں کتب فروش کے ساتھ کالم نگار کی کلاس لے لی۔
کالم نگار نے بھی تلخ جواب دیا۔ تماشا یہ ہوا کہ دونوں کے حامیوں نے اپنے اپنے ممدوح کی پوسٹ پر ’’علمی ادبی اخلاقی‘‘ بھنگڑا ڈالا اور خوب ڈالا۔
یہ تحریر لکھے جانے سے چند گھنٹے قبل اردو کے اس "سب سے بڑے ادیب” کی ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں آنجناب نے ملتان کی دو معزز خوتین (یہ ماں بیٹی ہیں) کے بارے میں اپنی ” ادب و زبان دانی ” کا ایسا مظاہرہ کیا کہ مجھ طالب علم کو مرحومہ بلقیس خانم یاد آگئیں جنہوں نے مجھ سے کہا تھا
’’ہمارے ہاں (بازار حسن میں) رقص کی محفلیں سجانے والے چوباروں کی خواتین میں ، کرسی والیوں (جسم فروش عورتوں) کو کسبی یا گشتی کی گالی دینے کو عیب سمجھا جاتا ہے‘‘۔
یادوں کی اس دستک میں بہت کچھ یاد آرہا ہے لیکن کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ہے
حرف آخر یہ ہے کہ ہندو پاک کے معاشروں میں سب سے سستا کام عورت کو گالی دینا یا گالی میں عورت کو شامل کرنا ہے۔ اردو کے عصر حاضر میں "سب سے بڑے ادیب” نے یہ دونوں کام ایک ہی پوسٹ میں کئے۔
میرا دل چاہتا ہے چلیں چھوڑیں دل تو بہت کچھ چاہتا ہے۔