’جس انسان کے ساتھ آپ نے زندگی کے 20 سال گزارے ہوں اور وہ بھی غربت اور کمزوری کے دن جب ہم میاں بیوی ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ وہ اچانک حادثاتی موت کا شکار ہو جائے کہ گھر والے تو دور کسی انسان نے اس کی نعش تک نہ دیکھی ہو۔ ایسے میں دل کو صبر دلانا مشکل ہی نہیں ایک ناممکن سی بات ہے۔ لیکن اب ایک سال سے جب کوئی نام و نشاں نظر نہیں آ رہا تو دل نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہا۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ پنجاب کے رہائشی افضل حیات کی بیوہ کا جو گزشتہ برس 14 جون کو یونان کشتی حادثہ کا شکار ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔
گزشتہ برس جون میں یونان میں ایک کشتی ڈوبی تھی جس میں 350 پاکستانی بھی شامل تھے۔ پاکستان میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اس حادثے میں 281 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ 12 پاکستانی زندہ بچ گئے تھے جبکہ 16 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ باقی لاشوں کی شناخت ہی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔
جس وقت یہ حادثہ ہوا تھا اس کے دو ہفتے بعد دنوں بعد عیدالاضحیٰ تھی اور اب جب اس حادثے کو ایک برس مکمل ہو رہا ہے تو اس کے تین دن بعد عید الاضحٰی آ رہی ہے۔ جس وجہ سے لواحقین کے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔
کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے افضل حیات کی عمر 45 برس تھی۔ انہوں نے علاقے کے عام نوجوانوں کی نسبت دیر سے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے وہ محنت مزدوری اور کاشت کاری کرکے اپنا گھر بار چلا رہے تھے۔
والدین نے ان کی شادی بھی جلد ہی کر دی تھی۔ جب وہ بیرون ملک روانہ ہوئے تو وہ پانچ بچوں کے باپ تھے۔ جن میں بڑے بیٹے کی عمر اب 19 سال ہے جبکہ باقی بچوں کی عمریں بالتریب 17، 15، 13 اور آٹھ برس ہیں۔
ان کے خاندان نے یہ ایک سال امید اور بے یقینی کے بھنور میں ایسے گزارا ہے کہ ایک دن جب دل کو رب کی رضا پر راضی کرتے اگلے ہی دن کوئی جھوٹی خبر ان کی امید کو جگا دیتی جس وجہ سے گھر میں ہمہ وقت اداسی کا ماحول چھایا رہتا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں افضل حیات کی اہلیہ نے کہا کہ ’یہ سال مشکل ترین سال تھا۔ ایک طرف بڑھتی عمر کے بچوں کا خیال رکھنا اور دوسری جانب بوڑھے ساس سسر جن کے بیٹے کی ناگہانی موت نے ان کے بڑھاپے میں اندھیرا کر دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افضل نے اپنے بیٹے کو باہر بھیجنے کے بجائے خود باہر جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ وہاں جا کر کچھ عرصہ کمائی کر کے دونوں بڑے بیٹوں کو باہر بلا لوں گا اور اس طرح نہ صرف مالی حالات بہتر ہو جائیں گے بلکہ خاندان کے افراد بھی ایک ایک کرکے بیرون ملک چلے جائیں گے اور وہ خود اپنے والدین کی خدمت کے لیے واپس آ جائے گا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘
افضل حیات کی اہلیہ نے بتایا کہ ’گھر کے اخراجات چلانے کے لیے زرعی آمدن انتہائی ناکافی ہے اس وجہ سے اپنے بھائیوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے مدد لینا پڑی رہی ہے۔ یہ بھی اچھا ہے کہ لوگ مدد کر دیتے ہیں اور خاندان سے باہر کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلانا پڑتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’زندگی میں آگے بڑھنے اور اپنے بچوں کو پالنے کے لیے اپنے بہن بھائیوں کی مدد سے میں نے کم از کم یہ کڑوا گھونٹ پی لیا ہے کہ اپنے آپ کو سمجھانے میں کامیاب ہوگئی ہوں کہ افضل اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ میرے لیے یہ بہت مشکل تھا کیونکہ ہمارا آپس میں وقت بہت اچھا گزرا ہے۔ دل تو نہیں مانتا تھا لیکن انہونی کو کوئی کب تک ٹال سکتا ہے۔‘
افضل حیات کے قریبی عزیز آصف حیات نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس کے والدین نے ابھی تک افضل کی موت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ بوڑھی والدہ اپنے بیٹے کی راہ تکتی رہتی ہیں اور ان کی امید ابھی زندہ ہے کہ ان کا بیٹا لازمی آئے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنے زیادہ لوگ مر جائیں اور ان کی نعشوں کی شناخت نہ ہو۔ یقیناً انھوں نے میرے افضل سمیت بہت سے لوگوں کو پکڑ رکھا ہے۔ کسی نہ کسی وہ ان کو چھوڑ کر واپس بھجوا دیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ہم سے ابتدائی ایام میں صرف ایجنٹ کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا اس کے علاوہ کسی سرکاری ادارے نے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم نعشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے سیمپل جمع کروائے تھے۔
اس حادثے میں افضل حیات کے علاوہ بھی جان کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین کی اکثریت نے اپنے بچوں کی موت کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنی وزارت کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد سب سے پہلے ایف آئی اے حکام کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس کیا تھا جس میں انہوں نے یونان کشتی حادثہ سے متعلق تمام تفصیلات پر مبنی رپورٹ طلب کی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق یونان کشتی حادثہ کی حتمی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق خاندانوں اور رشتہ داروں کی معلومات پر147 انسانی اسمگلرز کی نشاندہی ہوئی جس کی روشنی میں 200 کے قریب مقدمات درج ہوئے۔ انکوائریاں مکمل کی گئیں،کریک ڈاؤن کے دوران 100 سے زائد انسانی سمگلرز کو گرفتار کیا گیا۔ 32 بیرون ملک ہیں جس کے لیے انٹرپول سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔
ایف آئی اے نے 262، وزارت خارجہ نے 278 متاثرہ خاندانوں کی لسٹیں تیار کیں۔ واقعے میں 12 پاکستانیوں کو بچا لیا گیا۔ نعشوں کی شناخت کے لیے 262 لواحقین کے ڈی این اے سیمپل حاصل کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق نادرا کو 82 افراد کے فنگر پرنٹس کا ڈیٹا فراہم کیا گیا جس میں صرف 15 مقتولین کے فنگر پرنٹس میچ کر گئے۔ متاثرین کی اکثریت پاکستان سے ای ویزے پر بیرون ملک سفر کر کے لیبیا پہنچی تھی۔