
خواتین کی تضحیک اور بے ادب دانشور! …….علی احمد ڈھلوں
یہ وہ معاشرہ ہے جہاں خواتین کو درپیش کچھ پریشانیوں میں گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری اور اغوا، ازدواجی عصمت دری، جبری شادی اور اسقاط حمل کا سامنا ہے
آج کل جہاں پاکستان میں سینکڑوں قسم کے مسائل ہیں وہیں ایک عجیب سی بحث چل رہی ہے کہ پاکستان میں موجود خواتین کی 95فیصد تعداد جاہل ہے، ویسے تو ایسے الفاظ ہی کہنا میرے خیال میں اپنے آپ میں توہین ہے لیکن اس پر اڑ جانا اس سے بھی بڑی جہالت ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں خواتین کے حوالے سے خیر کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟ یعنی یہ وہ معاشرہ ہے جہاں خواتین کو درپیش کچھ پریشانیوں میں گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، عصمت دری اور اغوا، ازدواجی عصمت دری، جبری شادی اور اسقاط حمل کا سامنا ہے۔پھر وطن عزیز میں خواتین کے حوالے سے ایک غمناک رپورٹ بھی ملاحظہ فرمالیں کہ عالمی جینڈر گیپ انڈیکس کی رپورٹ میں پاکستان کو کل 153 ممالک میں سے 151 واں درجہ دیا گیا ہے۔ پھر ایک اور رپورٹ کے مطابق تھامسن رائٹرز فائونڈیشن (ٹی آر ایف ) کے ذریعہ کیے گئے ایک سروے میں پاکستان کو خواتین کے لیے پانچواں خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔
ایسے معاشرے میں یہ کہنا کہ ”خواتین جاہل ہیں“ نفرت انگیز جملہ لگتا ہے۔ میرے خیال میں ایسے جملوں سے خواتین کے استحصال اور اُن کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوگا۔ خیر آگے چلنے سے پہلے یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ بحث ایک قومی ٹی وی کے پروگرام میں اُس وقت شروع ہوئی جب ایک مذہبی سکالر نے بحث کے دوران ملک کی 95 فیصد خواتین کو جاہل قرار دیا۔اور دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے صرف 25 فیصد مرد جاہل ہیں۔انہوں نے خواتین کے حوالے سے مزید کہا تھا کہ انہیں میک اپ، ٹک ٹاک اور ڈانس سمیت دیگر موضوعات پر تو مکمل عبور ہوتا ہے لیکن اسلام سمیت دیگر تعلیمات کے حوالے سے انہیں کوئی علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ ملک کا جائزہ لیا جائے تو 100 میں سے 25 مرد جاہل نکلیں گے جب کہ 50 مرد کم پڑھے لکھے اور 25 فیصد مرد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے۔ اس پر پروگرام میں موجود ایک لڑکی نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے ان سے پروگرام کے دوران ہی معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ لڑکی نے دلیل دی تھی کہ 95 فیصد خواتین کو جاہل قرار دیے جانے کے شواہد اور ثبوت پیش کیے جائیں، دوسرا یہ کہ ملک کی خواتین کو مردوں نے ہی جاہل بنا رکھا ہوا ہے۔اسی پروگرام کے دوران موٹیویشنل اسپیکر اور مذکورہ لڑکی کے درمیان بحث کے وقت ڈرامہ ساز خلیل الرحمٰن قمر بھی درمیان میں آگئے اور انہوں نے لڑکی کو جھاڑ پلادی۔ خلیل الرحمٰن قمر نے لڑکی سے بات کرنے کے دوران سخت لہجہ اپنایا، جس پر خاصی لے دے بھی ہو رہی ہے۔
اور پھر بات چلتے چلتے پنجاب اسمبلی تک بھی جاپہنچی ہے جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے الیکٹرانک میڈیا پر خواتین کو جاہل قرار دئیے جانے کے خلاف پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں قرارداد جمع کروا دی۔خیر یہ تو نہایت افسوسناک بات ہے کہ ہماری بیٹیوں، ماﺅں ، بہنوں کو جو پہلے ہی اس ملک میں خواری کی زندگی گزار رہی ہیں، اُن کی اس طرح کی تذلیل پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، حالانکہ ایک وقت تھا کہ مجھ سمیت سارا پاکستان خلیل الرحمن قمر کا مداح تھا، لیکن خواتین کے بارے میں اُن کی مخصوص سوچ نے اس معاشرے میں موجود ہر شے کو دھندلا دیا ہے۔ خیر چھوڑیں ان کو آپ یہ سوچیں کہ جب ایک نوکری کرنے والی خاتون سے پوچھیں کہ وہ نوکری کیوں کر رہی ہے ؟ تو وہ آپ کو ایسے ایسے قصے سنائے گی کہ آپ کی آنکھیں نم ہو جائیں گی۔ پھر آپ کا دل چاہے گا کہ اُسے سمجھایا جائے کہ بیٹی! میں تمہیں کیسے بتاﺅں کہ اس سماج کے برائے نام اور کھوکھلے دانشور تو تمہیں جاہل اور اجڈ سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک 95 فیصد خواتین جاہل ہیں۔ اور پھر یہ بھی کیسے بتاﺅں کہ یہ تو تم سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں تم ان کے سامنے کھڑی نا ہو جاﺅ۔ جب کبھی تمہیں موقع ملتا ہے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے کا ، تو یہ فوراً سے سہم جاتے ہیں اور تمہاری بلند آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کھوکھلے دانش گردوں کو بڑے اچھے سے پتا ہے ” کہ جو تم جانتی ہو وہ یہ نہیں جانتے“بقول شاعر
تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
ان نام نہاد دانشور وں کو چاہیے کہ خواتین کو ایجوکیٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، اگر کسی کو عربی پر عبور حاصل ہے تو کیا وہ ساری دنیا کو جاہل سمجھے گا۔ اور فرانسیسی سمجھنے والا تو پھر ان کو جاہل سمجھے گا۔ یہ تو پھر ایسے ہی ہوگا کہ جیسے ٹینس کے پلیئر کے لیے کرکٹ کے کھلاڑی جاہل اور کرکٹ کے کھلاڑی کے لیے ہاکی کے پلیئر جاہل۔ لہٰذاہمیں شائستگی کا رویہ اپنانا چاہیے، کبھی ہتک آمیز رویہ نہیں اپنانا چاہیے! اگر یہ ادبی دانشور ہیں تو انہیں اپنے اوپر بے ادبی کا لیبل نہیں لگانا چاہیے، ایسا کرنے سے یقینا ان کی اپنی تضحیک ہوگی اور لوگ ان سے متنفر ہو جائیں گے!
میرے خیال میں کیا ان دانشوروںکو نہیں معلوم کہ پاکستان میں، خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور فائز رہی ہیںجن میں وزیر اعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، قائد حزب اختلاف، نیز وفاقی وزرا، جج، اور مسلح افواج میں کمیشن کے عہدوں پر فائز ہیں۔ میجر جنرل شاہدہ ملک پہلی خاتون ہیں جو اس پوسٹ تک پہنچی ہیں اس کے علاوہ میجر جنرل زہرانگار بھی اس عسکری ادارے میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ وطن عزیز کے ہر دور میں خواتین نے کس طرح ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، محترمہ فاطمہ جناح تحریک پاکستان میں ایک اہم شخصیت تھیں۔وہ مشترکہ حزب اختلاف جماعت کے امیدوار کے طور پر، 1965ءمیں صدارتی انتخاب لڑنے والی پہلی مسلمان خاتون تھیں۔پھر شائستہ اکرام اللہ، پاکستانی آئین ساز اسمبلی کی پہلی خاتون منتخب رکن تھیں۔ بیگم محمودہ سلیم خان پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اور صدر جنرل ایوب خان کی کابینہ کی رکن تھیں۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان خواتین کے حقوق کارکنان تھیں۔ وہ آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن کی بانی تھیں۔ وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو 1975ءمیں اقوام متحدہ کی پہلی خواتین کانفرنس میں پاکستانی وفد کی نمائندگی کرنے گئیں۔ بینظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں اور وہ کسی بھی مسلمان ملک کی سربراہی کے لیے منتخب ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔ وہ دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر منتخب ہوئی تھیں۔ فہمیدہ مرزا پہلی خاتون اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان بنیں۔ دیگر اہم پاکستانی خواتین سیاست دانوں میں بیگم نسیم ولی خان، فرزانہ راجا، سیدہ عابدہ حسین، شیری رحمان اور تہمینہ دولتانہ شامل ہیں۔ حنا ربانی کھر 2011ء میں پاکستان کی پہلی وزیر خارجہ بنیں۔ عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی، انسانی حقوق کے ممتاز وکلا اور پاکستان میں پہلی خواتین لا فرم، اے جی ایچ ایس کی بانی تھیں۔ ان کی کاوشوں اور ڈکٹیٹر شپ کے خلاف کھڑے ہونے کے اقدامات کو کون نہیں جانتا! کون نہیں جانتا کہ انہوں نے عدلیہ بحالی تحاریک کس طرح چلائیں!
پھر یہ لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ وقارالنساءنون کون ہیں؟ آج تک کوئی مرد وہ کام نہیں کر سکا،جو انہوں نے پاکستان کے لیے کیا۔پھرانہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ ملالہ یوسفزئی کون ہے ، یہ وہی ایک نو عمر پاکستانی لڑکی ہے، جو تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر مشہور ہوئی، اسے 15 سال کی عمر میں اس کے آبائی شہر مینگورہ میں، چہرے پر گولی مار کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ صحت یاب ہونے کے بعد بچوں کے حقوق کے لیے ان کے کام کے لیے وہ کیلاش ستیارتھی کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام جیتنے میں کامیاب رہی۔ ثانیہ نشتر، پہلی پاکستانی خاتون ماہر امراض قلب اور واحد خاتون عبوری کابینہ رکن 2013ئ، جسے صحت کی پالیسی کی وکالت میں اپنے کام اور کامیابیوں کے لیے عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔پھر جسٹس ماجدہ رضوی، ہائی کورٹ کی پہلی خاتون ججوں میں سے ایک ہیں جو این سی ایس ڈبلیو کی سابقہ چیئرپرسن اور انسانی حقوق کی کارکن بھی ہیں، پھر جسٹس ناصرہ اقبال، علامہ محمد اقبال کی بہو اور اولین خواتین ججوں میں سے ایک اور انسانی حقوق کی ایک ممتاز کارکن ہیں۔
آپ اداکارائیں دیکھ لیں جنہوں نے ایک عرصہ تک دنیائے ٹی وی پر راج کیا۔ زیبا بختیار، ثمینہ پیرزادہ، ماہرہ خان، مارینہ خان، عائشہ عمر، صنم سعید، مہوش حیات ، مہ نور بلوچ۔ پھر ایک عرصہ تک محترمہ نورجہاں کے گائے ہوئے گانے برصغیر میں سنے جاتے رہے۔ ان کے علاوہ دنیا بھر میں آج بھی عابدہ پروین، فریدہ خانم، نیرہ نور، اقبال بانو، نازیہ حسن ، حدیقہ کیانی وغیرہ کے گانے شوق سے سنے جاتے ہیں۔ اور تو اور آپ کھیلوں کی دنیا میں دیکھ لیں ہماری خواتین کسی سے پیچھے نہیں رہیں، حالانکہ اس ملک میں خواتین کو سپورٹس میں نہ ہونے کے برابر سہولتیں دی جا تی ہیں مگر پھر بھی 1996ءمیں، جب دو بہنوں شائزہ خان اور شرمین خان نے پہلی بار پاکستان میں خواتین کی کرکٹ کو متعارف کروانے کی کوشش کی تو انھیں عدالتی مقدمات اور یہاں تک کہ موت کی دھمکیاں ملیں۔ حکومت نے انھیں 1997ءمیں بھارت سے کھیلنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا اور یہ حکم دیا تھا کہ خواتین عوامی سطح پر نہیں کھیل سکتیں۔ تاہم، بعد میں انھیں اجازت مل گئی اور پاکستان خواتین قومی کرکٹ ٹیم نے اپنا پہلا میچ 28 جنوری 1997ءکو نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں کھیلا۔شازیہ ہدایت 2000ءگرمائی اولمپک کھیلوں میں پاکستانی دستے کی واحد خاتون اولمپین تھیں اور اولمپک مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی دوسری خاتون تھیں۔ سدرہ صدف نے، جنوری 2010ءمیں بنگلہ دیش، ڈھاکہ میں منعقدہ 11 ویں جنوب ایشیائی کھیلوں میں سائیکلسٹ نے چاندی کا تمغا جیتا تھا۔ نسیم حمید نے 2010ءمیں جنوب ایشیائی کھیلوں کے بعد جنوبی ایشیا میں تیز ترین تیز رفتار رنٹر ریکارڈ قائم کیا تھا۔
آپ ادب میں خواتین کی خدمات کو کیسے بھول سکتے ہیں ان میں نمایاں نام عصمت چغتائی، جو ترقی پسند تحریک کا حصہ تھیں، اردو کی اہم ترین نسائی مصنفہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ پروین شاکر، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض بھی اردو نسائی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ جدید افسانہ نگار جیسے رضوانہ سعید علی اور بانو قدسیہ صنفی امور پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بیپسی سدھوا پاکستان کی سب سے ممتاز انگریزی ناول نگارہ ہے۔ 1991ءمیں، ان کو ستارہ امتیاز، پاکستان کا فنون لطیفہ میں سب سے بڑا اعزاز، دیا گیا۔اس کے علاوہ بھی کئی شعبوں میں خواتین نے نام کمایا، چلیں آپ یہ سب چھوڑیں گھر سے باہر نکلیں، سکول، کالج ، یونیورسٹی ، بنک یا کسی کمپنی میں چلے جائیں ، کیا آپ کو کسی صورت بھی خواتین مردوں کے مقابلے میں کم تر نظر آئیں گی؟ تو بجائے ہم سادھو لوگ ان کا سہارا بنیں، ان کے لیے آواز اُٹھائیں، اُلٹا ہم نے ان کی تضحیک کرنا اپنے کلچر کا حصہ بنا لیا ہے۔ کیا یہ خواتین کے ساتھ زیادتی نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ان موسمی سپیکروں سے جان چھڑائیں اور حقیقت کا ساتھ دیں تاکہ یہ ملک دنیا بھر میں اپنا وقار بنائے! ناکہ مزید دھنستا چلا جائے!