منزل پر پہنچنا آسان نہیں ہوتا……ناصف اعوان
بلا شبہ ملک میں بے روزگاری ناانصافی ہے سیاسی عدم استحکام ہے لہذا نوجوان یہ دیکھتے ہوئے کہ اگلے دس بیس برس میں بھی ان کے مستقبل کے روشن ہونے امکان نہیں
پڑھے لکھے نوجوانوں میں یورپ میں جا بسنے کی خواہش ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتی جا رہی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ موجودہ نظام سے سخت بیزار ہے کہ جس میں انصاف روزگار اور سیاسی استحکام کا فقدان ہے لہذا وہ مایوس ہو کر دیس سے پردیس کی جانب سفر کرنے پر مجبور ہے ۔
بلا شبہ ملک میں بے روزگاری ناانصافی ہے سیاسی عدم استحکام ہے لہذا نوجوان یہ دیکھتے ہوئے کہ اگلے دس بیس برس میں بھی ان کے مستقبل کے روشن ہونے امکان نہیں وہ یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جائز ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جو غیر قانونی طور سے جا رہے ہیں وہ بڑی ہولناک صورت حال سے دو چار ہو رہے ہیں ۔ سرحدوں پر موجود سرحدوں کے محافظ ان کے ساتھ جانوروں ایسا سلوک کرتے ہیں انہیں وہاں کے قانون کے مطابق سزائیں بھی دلواتے ہیں کچھ تو اپنی جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں اس کے باوجود وہ وہاں جانے کو ترجیح دیتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کی ذرا بھی فکر نہیں ان کی اس لاتعلقی سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ ان کے سر سے یہ ”بوجھ“ اترے وگرنہ کوئی بھی حکمران نہیں چاہے گا کہ اس کا ٹیلنٹ ملک سے باہر چلا جائے مگر یہاں تو گنگا الٹی بہتی ہے کوئی مرتا ہے جیتا ہے کسی کو روزگار ملتا ہے یا نہیں اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ۔
انہیں (حکمرانوں) اپنے مفادات عزیز ہیں اور اقتدار پیارا ہے اس کے علاوہ انہیں کسی سے کوئی دلچسپی نہیں لہذا روز بروز مسائل کی یلغار ہو رہی ہے لوگ شور مچا رہے ہیں روتے ہیں دھوتے ہیں مگر ان کی طرف کوئی اہل اختیار متوجہ نہیں ہوتا ؟
یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ ابھی یہ آغاز ہے مشکلات کا لہذا نوجوانوں کو دل برداشتہ و مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جب دنیا کے اندر ایسی صورت حال نے جنم لیا تو وہ طویل عرصے تک موجود رہی یورپ کو چند برسوں میں آسائشیں میسر نہیں آئیں اسے صدیوں تک جدوجہد کرنا پڑی ‘جاگیر داری نظام سے نجات پانا آسان نہیں تھا۔
لیوبرہیو مین اپنی کتاب ”یورپ امیر کیسے بنا“ میں لکھتا ہے کہ یورپ کا نظام غیر مساوی بنیادوں پر قائم تھا جاگیرداری نظام جو برس ہا برس پر محیط رہا ہے نے انسانوں کو غلام بنا رکھا تھا وہ بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی بسر کرتے ان کی باقاعدہ و باضابطہ خرید وفروخت ہوتی ۔جاگیردار تمام وسائل پر قابض تھے وہ اپنے غلاموں جنہیں سرف (serf) کے نام سے پکارا جاتا تھا نسل در نسل فروخت ہوتے جاتے اگر کوئی جاگیر دار اپنی زمین کسی دوسرے کو بیچتا تو وہ بھی ساتھ ِِبِک جاتے مگر انہیں اپنے کُنبے کے افراد کو یکجا رکھنے کا پورا حق حاصل تھا ان کے کی مالک کی مرضی ان کے ایک ساتھ رہنے کے حق میں خلل نہیں ڈال سکتی تھی ۔یہ صورت حال ویلے آوارہ منش افراد کے لئے بڑی پُر کشش تھی لہذا وہ بہ رضا و رغبت جاگیردار کے روبرو گلے میں رسی ڈال کر سر پر ایک پینی رکھ کر حاضر ہوتے اور خود کو سرف بنائے جانے کی التجا کرتے ۔
یہ تکلیف دہ دور بہت طویل تھا مگرجب ارتقائی عمل آگے بڑھتا ہے تو جاگیردارانہ نظام تبدیل ہونا شروع ہو تا ہے اس میں تاجر طبقہ داخل ہوتا ہے وہ قیمتاً جاگیریں خریدتا ہے اس طبقے کو پیدا ہونے اور پروان چڑھنے میں صدیاں لگیں ۔یورپ کو امیر بننے میں گویا خون کے دریا عبور کرنا پڑے ۔سولہویں اور سترھویں صدی میں جب مہاجنوں کے محلوں پر سونے اور چاندی کی بارش ہو رہی تھی تو اس وقت بھکاریوں کی بے تحاشا تعداد در در کی ٹھوکریں کھا رہی تھی یہ بھکاری جو امراء کے گھروں کو گھیرے رہتے تھے اور گروہ در گروہ جنگلوں میں گھومتے رہتے تھے سے نجات پانے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو امراء نے شکاری دستے ترتیب دینا شروع کر دئیے ۔ان امراء کی مشکل اس وقت کی جنگوں نے آسان کر دی جب جرمنی نے سولہ سو اٹھارہ سے سولہ سو اڑتالیس تک جنگ جاری رکھی اس میں یورپ کی دو تہائی آبادی کو موت کی نیند سلا دیا گیا جو باقی بچی ااس کی تباہ حالی نہیں دیکھی جاتی تھی دیہاتوں کا پانچ بٹہ چھ حصہ برباد ہو گیا تھا ۔“
آج جو یورپ حسین مہذب اور ترقی یافتہ نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے ہولناکیاں سسکیاں اور آہیں ہیں وہ کبھی جاگیرداروں اور کبھی حملہ آوروں کے ستم سہتا رہا جاگیرداری نظام جب سرمایہ داری نظام میں تبدیل ہوا تو استحصال کی ایک نئی صورت لے کر ابھرا مگر اتنا ضرور ہوا کہ اس میں مزدوروں محنت کشوں اور ”سرفوں “ کو منظم ہونے کا بھر پور موقع مل گیا جس سے یورپ انقلاب کے دہانے پر آن کھڑا ہوا پھر سرمایہ دار کو بہت سی سہولتیں دینا پڑیں یورپ کے ترقی کی منازل طے کرنے سے متعلق مکمل طور سے جو قارئین جاننا چاہتے ہوں تو وہ لیوہیوبرمین کی کتاب کا مطالعہ کریں ۔
باوجود اس کے کہ یورپ تہزیب و ترقی کی مچان پر کھڑا دکھائی دیتا
ہے بدیسی لوگوں کے لئے سہل اور آسان نہیں وہاں جا کر ایک عرصے کے لئے پابندیوں اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ بات بڑی قابل تحسین ہے کہ جن سماجوں نے جبر و ظلم برداشت کیے وہ دوسروں کو ان کا نشانہ نہیں بنانا چاہتے مگر سوال یہ کہ ہمارے لوگ ایسے نظام کے لئے جد وجہد کیوں نہیں کرتے جس میں مساوات ہو انصاف ہو وہ بنی بنائی خواب گاہوں میں کیوں جا کر رہنا چاہتے ہیں وہاں وہ دیانت داری بھی دکھاتے ہیں اور قانون پر عمل بھی کرتے ہیں مگر ادھر ایسا کیوں نہیں ؟ ان کا یہ کہنا کہ یہاں ذرائع روزگار نہیں انصاف مہنگا بھی ہے اور ناپید بھی‘ میرٹ نہیں سیاسی استحکام نہیں وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب درست ہے مگر جہاں وہ جا رہے ہیں وہاں بھی تو یہی کچھ تھا مگر اب وہ باقی نہیں رہا کیوں کیونکہ اہل یورپ نے حوصلہ نہیں ہارا لہذا آج وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ بہرحال ہماری حکومتوں جو بدلتی دنیا میں اقتدار میں آرہی ہیں کو سوچنا ہو گا کہ وہ شعور کے آگے مکاریوں ظلمتوں اور جکڑ بندیوں کے بند نہ باندھیں جو لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں وہ ان کی سوچوں کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں لہذا وہ صنعتوں کا قیام عمل میں لائیں دباؤ کی روش کو ترک کریں لوگوں کو اعتماد میں لیں اگر ان کو یہ خیال ہے کہ انہیں تو یورپ چلے جانا ہے تو وہ یہ بات ذہن میں رکھیں وہاں انہیں چین نہیں ملے گا فی الوقت بھی وہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس کسی نے ان کے مستقبل بارے نہیں سوچا انہیں باہر کا راستہ دکھایا تو وہاں اسے بہت کچھ سننا پڑ رہا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ حکمران وطن عزیز میں ذرائع روزگار کے جال بچھا دیں انصاف کا علم بلند کریں تا کہ باہر جانے والوں کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی آسکے ایسا کرنا ان کے لئے مشکل نہیں !