مشرق وسطیٰ پر منڈلاتے جنگ کے بادل ایران اسرائیل متوقع جنگ….محمد زاہد خان
امریکہ نے کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں اپنے 26 کے قریب فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں ہزاروں امریکی فوجی جدید ترین جنگی سازوسامان کے ساتھ موجود ہیں
ایران اسرائیل متوقع جنگ ایران کو چاروں اطراف سے 26 سے زائد امریکی فوجی اڈوں سے حملے کا سامنا دوسری طرف روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس نے بھی جدید ہتھیاروں کی بہت بڑی کھیپ ایران میں اتار دی جیسے امریکہ نے روس کے دشمنوں کو مسلح کیا اب روس بھی امریکہ کے دشمن (ایران) کو مسلح کرےگا۔
امریکہ نے کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں اپنے 26 کے قریب فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں ہزاروں امریکی فوجی جدید ترین جنگی سازوسامان کے ساتھ موجود ہیں حالیہ برسوں کے دوران امریکی فوجی ایران کی حمایت یافتہ فورسز کے حملوں کی زد میں آئے ہیں جب کہ امریکی فوجیوں نے ان فورسز کے خلاف کارروائی بھی کی ہے اگر مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو سال 2007ء میں عراق میں ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ اہلکار تھے سال 2011ء میں افغانستان میں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود تھے۔ اگرچہ سال 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے بعد یہ تعداد بہت کم ہو گئی تھی ۔ تاہم اب بھی تقریباً 30,000 امریکی فوجی پورے خطے میں پھیلے ہوئے ہیں گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکہ نے عارضی طور پر ہزاروں اضافی فوجیوں کو جنگی جہازوں سمیت خطے میں بھیج دیا ہے امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈا قطر میں چلا رہا ہے جسے العدید ایئر بیس کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1996ء میں بنایا گیا تھا خطے میں دیگر ممالک جہاں امریکہ کی عسکری موجودگی ہے ان میں بحرین، کویت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں شام میں امریکہ کے تقریباً 900 فوجی ہیں جو العمر آئل فیلڈ اور الشدادی جیسے چھوٹے اڈوں میں زیادہ تر ملک کے شمال مشرق میں ہیں عراق اور اردن کے ساتھ ملک کی سرحد کے قریب ایک اور چھوٹی چوکی بھی ہے جسے التنف گیریژن کے نام سے جانا جاتا ہے مشرقِ وسطیٰ کے اہم ملک عراق میں 2,500 اہلکار موجود ہیں جو عین الاسد ایئر بیس اور ‘یونین تین’ جیسی سہولیات کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان فوجیوں کے مستقبل کے بارے میں بات چیت جاری ہے امریکی فوجی مختلف وجوہات کی بناء پر مشرقِ وسطیٰ میں تعینات کیے گئے ہیں شام کے علاوہ وہ ہر ملک کی حکومت کی اجازت سے وہاں موجود ہیں۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ عراق اور شام جیسے ملکوں میں امریکی فوجی داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے موجود ہیں۔ امریکی فوجی مقامی فورسز کو مشورہ دینے میں بھی مدد کر رہے ہیں امریکہ کے ایک اہم اتحادی ملک اردن میں سینکڑوں امریکی ٹرینرز ہیں جہاں وہ سال بھر وسیع مشقیں کرتے ہیں قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے دوسرے مقامات پر امریکی فوجیوں کی موجودگی اتحادی افواج کی تربیت اور خطے میں ضرورت کے مطابق کارروائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ واشنگٹن کے اتحادی ممالک بعض اوقات اپنے فوجیوں کو امریکی فوج کے ساتھ تربیت یا کام کرنے کے لیے بھیجتے ہیں، لیکن امریکہ کے اندر کوئی غیر ملکی فوجی اڈے نہیں ہیں امریکہ کا ‘ٹاور 22′ فوجی اڈہ اردن میں شمال مشرقی مقام پر واقع ہے۔ اس مقام پر اردن کی سرحدیں شام اور عراق سے ملتی ہیں۔ گزشتہ ماہ 28 جنوری کو اس اڈے پر ایک ڈرون حملے میں امریکی آرمی ریزرو کے تین فوجی ہلاک ہوئے تھے واشنگٹن نے ایران کی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا کتائب حزب اللہ پر اس حملے کا الزام لگایا تھا ٹاور 22’ التنف گیریژن کے قریب ہے، جو شام میں سرحد کے اُس پار واقع ہے۔ یہاں امریکی فوجیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد موجود ہے۔
التنف کا علاقہ داعش کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار کا حامل ہے اور اس نے مشرقی شام میں ایران کی فوجی تشکیل کو روکنے کے لیے ایک حصے کے طور پر کردار ادا کیا ہے حالیہ برسوں میں عراق اور شام میں امریکی فوجیوں پر اکثر حملے ہوتے رہے ہیں۔ البتہ قطر، بحرین، سعودی عرب، کویت جیسے ممالک میں امریکی تنصیبات پر عام طور پر حملے نہیں ہوتے گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے امریکی فوجیوں پر ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی طرف سے 160 سے زیادہ بار حملے کیے گئے ہیں۔
گزشتہ ماہ ‘ٹاور 22’ اڈے پر حملے سے پہلے امریکی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں تقریباً 80 فوجی زخمی ہوئے تھے۔ صرف ٹاور 22 پر حملے میں 40 کے قریب امریکی فوجی زخمی ہوئے امریکی اڈوں کی میزائلوں یا ڈرونز سے بچاؤ کے لیے فضائی دفاعی نظام سمیت جدید ٹیکنالوجی سے حفاظت کی جاتی ہے گزشتہ سال سے مشرقِ وسطیٰ میں تشدد کی ایک نئی لہر اکتوبر کے بعد سے جاری ہے۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل میں گھس کر 1,200 اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور 253 کو یرغمال بنا لیا تھا اسرائیل نے اس حملے کے جواب کو جواز بنا کر غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے جس میں اب تک بچوں ، خواتین سمیت ہزاروں بےگناہ فلسطینی شہید کئے جا چکے ہیں مگر اسرائیلی جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی حماس کے زیر انتظام محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق 27,000 سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی جارحیت ناصرف غزہ تک محدود ہے بلکہ لبنان، شام اور چند روز قبل ایران میں بھی اس کا مظاہرہ کیا گیا جیسا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی کو شہید کر دیا گیا، اسماعیل ہنیہ ایران میں نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے مقیم تھے اور انھیں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ تقریب سے واپس تہران میں اپنے ہوٹل پہنچے تھے اس سانحہ کے بعد ایران نے اسرائیل کو سبق سکھانے کا اعلان کردیا ہے اور خطے میں کسی بھی وقت بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے امریکا نے اسرائیلی جارحیت پر مذمت یا ندامت کی بجائے متوقع ایرانی حملے سے نپٹنے کے لیے اسرائیل کی مدد کے لیے پہلے سے موجود عسکری اڈوں پر مذید فوجی کمک بھیج دی ہے اور خطے میں امریکی عمل دخل میں مذید اضافہ ہوا ہے دوسری جانب روس نے بھی جدید ہتھیاروں کی بہت بڑی کھیپ ایران میں اتار دی ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے امریکی صدر جوبائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیسے امریکہ نے روس کے دشمنوں کو مسلح کیا اب روس بھی امریکہ کے دشمن (ایران) کو مسلح کرےگا۔