خیبر پختونخوا(نمائندہ وائس آف جرمنی):وائس آف جرمنی نمائندہ کےمطابق پولیس حکام نے بتایا کہ رزمک بازار میں زوردار دھماکے سے زخمی ہونے والے افراد کو میران شاہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس عہدیدار وہاب وزیر نے بتایا کہ ’بارودی مواد ایک موٹرسائیکل کے ساتھ باندھا گیا تھا جس کو رزمک شہر کے مرکزی بازار میں کھڑا کیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بازار میں اُس وقت زوردار دھماکہ ہوا جب وہاں لوگ خریداری کر رہے تھے۔ ’دھماکے سے دو افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ 17 زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘
دھماکے کی آواز دور تک سنائی گئی اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ سکیورٹی اہلکار فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچے اور علاقے میں سرچ آپریشن کیا۔
حکام کے مطابق دس زخمیوں کی حالت نازک ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بے گناہوں کو نشانہ بنانا دہشت گردی ہے۔
اگرچہ فوری طور پر کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم شبہ ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اس کے پیچھے ہو سکتی ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے میں کئی حملے کیے ہیں۔
پاکستانی افواج ٹی ٹی پی کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے اور صوبے کے قبائلی علاقوں میں 2014 کے بعد سے فوجی آپریشنز میں اس کی زیادہ تر قیادت کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئیں، مگر اس دوران ٹی ٹٰ پی کے بیشتر جنگجو پڑوسی ملک افغانستان چلے گئے۔
اسلام آباد تشدد میں تازہ ترین اضافے کا ذمہ دار پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کہتی رہی ہے کہ کابل انتظامیہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پناہ دیتی ہے جو افغان سرزمین سے پاکستان کے اندر حملے کرتے ہیں۔
کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اسلام آباد کو بارہا یقین دلاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔