حیدر جاوید سیدکالمز

کشمیری اہل دانش سے ایک ملاقات….حیدر جاوید سید

لگ بھگ پانچ گھنٹے سے سات گھنٹے (دو مرحلوں میں) جاری رہنے والی اس نشست میں طالب علم کو اہل کشمیر کی تہذیب و ثقافت ، تاریخ، بٹوارے کے زخموں، 77 برسوں کے جبرواستحصال اور مستقبل کے منظرنامے کے حوالہ سے دوستوں کی گفتگو سے استفادے کا موقع ملا۔

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ویسے تو مسلسل چار دن ’’مسٹر بکس‘‘ پر محفلیں سجتی رہیں۔ عزیزم ثاقب اعوان اپنے اہل علم و دانش دوستوں کو فون کرکرکے بتارہے آجائیں ایک مہمان ہے خوب باتیں کریں گے ان کے دوستوں ان میں چند بزرگ دوست بھی شامل تھے تشریف بھی لائے لیکن سوالات کا ایک ’’پلندہ‘‘ ثاقب اعوان کے پاس بھی ’’تازہ دم‘‘ تھا ان سوالوں پر دلچسپ گفتگو رہی۔
البتہ چوتھے اور پانچویں دن کی درمیانی شب ہمارے لائق احترام دوست معروف قانون دان سید ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ نے جہلم ویلی میں واقع کھیتر سیداں اپر ٹنڈالی میں اپنی قیام گاہ پر دوستوں سے ملاقات نشست اور استفادے کا موقع فراہم کیا اس محفل شب میں میزبان کے علاوہ راجہ انوارالقمر ایڈووکیٹ، معروف صحافی ، دانشور اور ادیب ملک عبدالحکیم کشمیری، ضلع کونسل مظفر آباد کے رکن سید علی رضا سبزواری ایڈووکیٹ راجہ عاقب سفیر ایڈووکیٹ اور سید شبیر شاہ بھی شریک تھے۔ ہمارے میزبان دوست کے جواں سال صاحبزادے اپنے والد گرامی کے مہمانوں کی میزبانی میں پیش پیش رہے۔
لگ بھگ پانچ گھنٹے سے سات گھنٹے (دو مرحلوں میں) جاری رہنے والی اس نشست میں طالب علم کو اہل کشمیر کی تہذیب و ثقافت ، تاریخ، بٹوارے کے زخموں، 77 برسوں کے جبرواستحصال اور مستقبل کے منظرنامے کے حوالہ سے دوستوں کی گفتگو سے استفادے کا موقع ملا۔
گو اس دوران پاکستانی سیاست، نظام ہائے حکومت، اسٹیبلشمنٹ کی "پروازوں ” ، ادب و علم اور تاریخ پر بھی گفتگو رہی مگر زیادہ تر کشمیری دوستوں کی باتوں کو سماعت کرنے کا لطف الگ ہے۔
معروف صحافی دانشور اور ادیب ملک عبدالحکیم کشمیری نے کمال مہارت اور نپے تلے انداز میں اہل کشمیر کا مقدمہ پیش کیا۔ کشمیری صاحب ’’تنازع کشمیر حقیقت کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی مسئلہ کشمیر پر ایک تقحیقی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اس تصنیف پر آزادیء کشمیر کے "بیس کیمپ ” آزاد جموں کشمیر میں پابندی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ اور مصنف کا لکھا ہوا مقدمہ پڑھ کر یہ احساس دوچند ہوجاتا ہے کہ آزادی کے بیس کیمپ میں کیسے کیسے ’’نگینے اور نابغے ‘‘ معروف و مسلط ہوئے اور ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جو کتاب آزاد جموں کشمیر کے نصاب تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے تھی وہ حکومتی پابندی کا شکار ہے، کیوں؟ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں پورا سچ سننے کا رواج نہیں۔ تحقیق و مطالعے اور حقیقت پسندی سے تنگ ہاتھ والے "سیاست کاروں” کو علم ہے کہ اگر نئی نسل تاریخی صداقتوں اور زمینی حقائق کا اپنے عصری شعور کے ساتھ تجزیہ کرنے لگے گی تو ان کی دکانیں بند نہ بھی ہوئیں تو بھی ان پر خریداری کرنے والے بتدریج کم ہوتے چلے جائیں گے
کھیتر سیداں اپر ٹنڈالی میں سیدی ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ کی قیام گاہ پر کشمیری دوستوں سے گفتگو میں ایک بات بطور خاص سمجھ میں آئی کہ کشمیریوں کی آج کی نسل اپنے ارض وطن کے جبری بٹوارے سے لگے زخموں سے نہ صرف کاملاً آگاہ ہے بلکہ زخم لگانے والے غیروں اور معاونت کرنے والے اپنوں کے کرداروں سے بھی بخوبی واقف ہے۔
کھلے ڈلے ماحول میں پانچ سے سات گھنٹے تک دو مرحلوں میں ہونے والی گفتگو کشمیریوں کی تاریخ کا رزق ہوئی نسلوں کے ساتھ آج کی نسل کا نوحہ تھی۔
دوران گفتگو ایک مرحلے پر فقیر راحھموں نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا
’’شاہ ہمیں نوحے اچھے لگتے ہیں مگر ان میں موجود کرب اور درد کی دستک محسوس ہوتی ہے نہ ہی زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ غلطیوں کی اصلاح کو ضروری سمجھتے ہیں‘‘۔
کھیتر سیداں سطح سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے شاندار موسم پر تکلیف میزبانی اور علم و ادب تاریخ و سیاست کے ساتھ بٹوارے کے گہرے زخموں، عصری سیاست کے مختلف رنگوں پر ایک شاندار محفل میں شرکت طالب علم کے لئے نعمت سے کم نہیں۔
بالائی سطور میں معروف صحافی ادیب و محقق ملک عبدالحکیم کشمیری کی تصنیف ’’تنازعہ کشمیر حقیقت کے آئینے میں‘‘ کا ذکر کیا۔ سفر کی تھکاوٹ اور علالت کے باعث ابھی اس کتاب کے پیش لفظ اور مقدمے کے علاوہ چند صفحات کا ہی مطالعہ کرپایا۔ جتنے صفحات پڑھے اس کی ایک ایک سطر لکھنے والے کی تحقیق عصری اور تاریخی شعور سے عبارت ہے۔
ملک عبدالحکیم کشمیری کی اس تصنیف سے آئندہ دنوں میں بھی ان سطور میں قارئین کے استفادے کے لئے حوالہ جات رقم کرتا رہوں گا فی الوقت پیش لفظ اور مقدمہ کے مختصر اقتباسات سے استفادہ کیجئے۔
’’ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے حکمران انتہا پسند عناصر اور ریاست میں اجنبی قوتوں کے آلہ کار تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی روش پر چلتے ہوئے جبری الحاق کو آزادی اور حق خودارادیت کا نام دے رہے ہیں‘‘۔
’’زبردستی کی رشتہ داری کیلئے ترقیاتی اہداف اجتماعی خوشحالی کو قربان کردیا جاتا ہے‘‘
’’بدنصیبی یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر تین حصوں میں تقسیم ہے (یاد رہے کہ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی آج کا جموں کشمیر کے بھارت کے زیرقبضہ کشمیر تین حصوں میں تقسیم ہے اور کشمیریوں کے مقدمے کے مطابق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر 2 حصوں میں منقسم ہے (آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) ’’کشمیریوں کو اس امر کا شدت کے ساتھ احساس ہے کہ وہ 1947ء کے حادثے میں اپنی قومی شناخت سے محروم کردیئے گئے اور مذہبی تقسیم کی زد میں آئے برصغیر و کشمیر نے کشمیریوں کے گھروں کے درمیان سرحدیں اٹھادیں‘‘۔
’’جموں کشمیر پر قابض ہر ایک قوت کا دعویٰ ہے کہ جموں کشمیر اس کا حصہ ہے یا ریاست جموں کشمیر کے لوگ ان (پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس سوچ کو ریاست کے باشندوں کا حق خودارادیت (آزادی) کہا جارہا ہے جو حق خود ارادیت کے حقیقی معنوں سے متضاد ہے‘‘۔
” 77 برسوں (مصنف نے 67 لکھا ہے کیونکہ کتاب 10 برس قبل شائع ہوئی) سے ہندوستان اور پاکستان کے ایما پر ہماری نئی نسل کو غلامی کی اذیت پر مبنی جو نصاب پڑھایا جارہا ہے تعلیمی اداروں میں خاص کر حکمت عملی کے تحت الحاق کے نعروں کو آزادی کا نام دے کر اس اہتمام سے مسلط کیا گیا کہ ہماری نئی نسل غلامی کو آزادی سمجھتی رہے‘‘۔
’’جو قوم کے قاتل تھے جو وطن (جموں کشمیر) کی تقسیم اور یہاں کے لوگوں کے دکھوں میں اضافے کا باعث بنے وہ ہیرو ٹھہرے‘‘۔
’’یہی ہمارے ساتھ ہوا، آزادی کی جدوجہد کرنے والی قوموں میں بڑے بڑے القاب اور چھوٹے کردار غلامی کی طوالت کا باعث بنتے ہیں۔ یہی ہمارے ساتھ ہوا قاتل الحاق کو آزادی کا نام دے کر بطور آلہ کار مسلط ہوئے۔ انگریز کے غلاموں نے اپنے آقائوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں شیر کشمیر، رئیس الاحرار، غازی ملت اور مجاہد اول کے خطاب دیئے یوں اقتدار کی سیاست کو آزادی کی جدوجہد کا نام دیا گیا‘‘۔
” 13297 مربع میل رقبہ پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں ہے۔ گلگت بلتستان کو الگ شناخت دی گئی۔ جموں، لداخ کارگل اور وادی پر مشتمل بڑا حصہ ہندوستان کے قبضے میں ہے‘‘۔ کشمیریوں کی شناخت 84471 مربع میل پر پھیلی جغرافیائی حدود کے اندر بسنے والوں کی ہے”
"شناخت اور اپنے فیصلے خود کرنے کے حق کا مسئلہ ہے۔ جس میں ہندو مسلمان بدھ اور دوسری مذہبی برادریاں شامل ہیں‘‘۔ مندرجہ بالا اقتباسات کتاب کے ابتدائی صفحات سے ہیں ان اقتباسات سے کشمیریوں کی مجموعی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کے دکھ سمجھ میں آتے ہیں۔
بالخصوص یہ کہ اپنی ہی سرزمین پر قابض ملکوں کے قانون میں جیتے لوگ جو اپنی امنگوں کے مطابق اپنا آئین تک نہ بناسکتے ہوں،
کھیتر سیداں اپر ٹنڈالی میں جمی محفل میں دوستوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بعض قوتیں آزاد کشمیر کو پاکستان میں اس طرح ضم کرنا چاہتی ہیں کہ آزاد کشمیر خیبر پختونخوا کے ایک ڈویژن اور پنجاب کے دو ڈویژنوں کو ’’دان‘‘ کردیا جائے۔ ملک عبدالحکیم کشمیری کا کہنا تھا کہ ’’اس طرح سوچنے والے نتائج سے آنکھیں چرارہے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button