پاکستان میں پولیو کے کیسز میں تیزی سے اضافہ، پولیو ورکرز کی جانیں خطرے میں
پولیو جیسی بیماری کو صرف چند قطروں کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہیلتھ ورکرز دوسروں کو پولیو سے بچاتے بچاتے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملے اور غلط معلومات سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات جیسی وجوہات، پولیو کے خاتمے میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیمیں اس مرض کے خلاف مستقل جدوجہد کر رہی ہیں۔
پاکستان میں پولیو کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں برس اب تک 45 کیسز رجسٹر ہو چکے ہیں، جبکہ سال 2023 میں یہ تعداد 6 اور سال 2021 میں صرف ایک تھی۔ پولیو سے زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ بیماری زندگی بھر کی معذوری کا باعث بن جاتی ہے۔
پولیو جیسی بیماری کو صرف چند قطروں کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہیلتھ ورکرز دوسروں کو پولیو سے بچاتے بچاتے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں پانچ بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے میں ویکسین ورکرز کی حفاظت پہ مامور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ چند روز قبل، عسکریت پسندوں نے دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پاکستان: پولیو ٹیم پر حملے میں پولیس اہلکار ہلاک
پاکستان کے شمالی مغربی علاقے پنم ڈیہری سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ زینب سلطان ایک ہیلتھ ورکر ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "جب بھی میں سنتی ہوں کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پہ حملہ کیا گیا ہے تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا کام جاری رکھیں۔ ہمارا کام لوگوں کو معذوری سے بچانا اور ایک صحت مند معاشرہ بنانا ہے۔”
افغانستان میں 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی پاکستان میں پولیو ورکرز پر بالخصوص حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ملک دشمن عناصر سرحد پار سے بدامنی پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کے علماء نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا تھا جس کے مطابق پولیو کی ویکسین میں خنزیرکا گوشت اور الکوحل شامل ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام مسلمان اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے اجتناب کریں۔
امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے سن 2011 میں اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے پاکستان میں چلائی جانے والی جعلی ویکسینیشن مہم نے اس بے اعتمادی کو مزید بڑھا دیا تھا۔
پاکستان کے رہائشی احسان اللہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں تقریباﹰ آدھے سے زیادہ والدین ابتدائی طور پر پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ یہ مغرب کی ایک چال ہے۔
پاکستان میں ماضی میں پولیو ویکسین پر عدم اعتماد کا الزام عائد کیے جانے کے بعد کچھ مذہبی رہنما اب والدین کو پولیو ویکسین کے لیے قائل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ امام طیب قریشی نامی ایک مبلغ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام بڑے دینی مدارس اور علماء نے پولیو ویکسین سے متعلق افواہوں کی تردید کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملہ کرنے والوں کا اسلام یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔