کیا یورپ تیسری جنگ عظیم کے لیے تیار ہے؟
اس نظام کے ذریعے ان میزائلوں کی فوری نشاندہی کی جاتی ہے تاکہ اپنے ہتھیاروں کی تباہی سے قبل ہی جوابی حملے کی تیاری کی جا سکے۔
امریکہ (رپورٹنگ وائس آف جرمنی):ممکنہ غلطیوں کے خدشات کی بڑی وجہ وہ تنبیہی نظام (وارننگ سسٹم) ہیں جو کسی ایٹمی حملے کے بارے میں پہلے سے خبردار کرتے ہیں۔ یہ نظام سرد جنگ کے زمانے میں قائم کیے گئے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ایٹمی حملے کی صورت میں فوری جواب دینا ہوتا ہے اس بات کا انتظار کرنے کی بجائے کہ میزائل اپنے اہداف کو نشانہ بنائیں۔ کیونکہ جوہری میزائل لانچ کرنا ہی جوابی حملے کا جواز بن جاتا ہے۔
اس نظام کے ذریعے ان میزائلوں کی فوری نشاندہی کی جاتی ہے تاکہ اپنے ہتھیاروں کی تباہی سے قبل ہی جوابی حملے کی تیاری کی جا سکے۔
تاہم اس کے لیے اعداد و شمار کی ضرورت ہوتی ہے۔
اکثر عام امریکی ناواقف ہیں کہ اس وقت امریکہ کی کئی سیٹلائٹ دنیا بھر کے ایٹمی اسلحے پر خاموشی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ان میں سے چار سیٹیلائٹ ایسی ہیں جو زمین سے 22 ہزار میل اوپر ’جیوسنکرونس مدار‘ میں ہیں۔ یہ سیٹلائٹ ایک ایسی جگہ پر ہیں جہاں وہ زمین کے لحاظ سے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کرتیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کسی مخصوص علاقے پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہاں 24 گھنٹے میں کسی بھی وقت کسی بھی ایٹمی حملے کے بارے میں انھیں فوراً معلوم ہو جائے گا۔
لیکن سیٹلائٹ داغے جانے والے میزائل کا پیچھا نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے امریکہ نے سینکڑوں ریڈار سٹیشن بنائے ہیں جو ان میزائلوں کی پوزیشن اور رفتار کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور یہ بھی حساب کتاب لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنے فاصلے پر اور کہاں گرے گا۔
جب واضح معلومات حاصل ہو جائیں کہ حملہ ہو چکا ہے تو صدر کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔ پیری کہتے ہیں ’حملے کے پانچ سے دس منٹ کے بعد صدر کو بتا دیا جاتا ہے اور پھر انھیں جوابی حملے کے بارے میں ایک انتہائی مشکل فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔‘
ولیم پیری کہتے ہیں کہ ’یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جو ہر وقت چل رہا ہوتا ہے۔ ’ہم یہاں ایک ایسی صورتحال کی بات کر رہے ہیں جس کا امکان بہت کم اور نتائج بہت بڑے ہیں۔ اس کے استعمال کی نوبت ایک ہی مرتبہ آئے گی۔‘
دو غلطیاں ایسی ہیں جو ایٹمی حملے کی غلط اطلاع دے سکتی ہیں۔ ایک کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے جبکہ دوسری انسانی غلطی ہو سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کی غلطی کی ایک بڑی مثال سنہ 1980 کا واقعہ ہے جب ولیم پیری صدر جمی کارٹر کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
پیری بتاتے ہیں کہ ’وہ ایک بڑا دھچکہ تھا۔ اس کا آغاز صبح تین بجے ایک ٹیلی فون کال سے ہوا۔ یہ کال امریکہ کے ایئر ڈیفنس کمانڈ آفس سے تھی جس میں بتایا گیا کہ نگرانی کرنے والے کمپیوٹرز نے 200 ایسے میزائلوں کے بارے میں پتا لگایا ہے جو براہ راست سوویت یونین سے امریکہ کی طرف داغے گئے ہیں۔‘
’اس وقت تک انھیں خود ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کوئی اصلی حملہ نہیں تھا اور کمپیوٹروں سے غلطی ہوئی تھی۔‘
پیری کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ مجھے فون کرنے سے پہلے وائٹ ہاؤس میں صدر کو فون کر چکے تھے۔ یہ کال صدر سے پہلے ان کے قومی سلامتی کے مشیر کو گئی۔ خوش قسمتی سے انھوں نے صدر کو جگانے سے پہلے کچھ منٹ کی تاخیر کی۔‘
’اس دوران انھیں یہ اطلاع دے دی گئی کہ یہ سب ایک غلطی کا نتیجہ تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اگر انھوں نے انتظار نہ کیا ہوتا اور فوراً ہی صدر کارٹر کو جگا دیا ہوتا تو شاید آج دنیا کی صورتحال مختلف ہوتی۔ اگر صدر کو یہ کال براہ راست موصول ہوتی تو ان کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے لگ بھگ پانچ منٹ ہوتے کہ جوابی حملہ کیا جائے یا نہیں۔ وہ عین رات کا وقت تھا، کسی سے مشورہ کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔‘
اس موقع کے بعد سے انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے ’غلطی سے استعمال‘ کو کبھی ایک مفروضے کے طور پر نہیں لیا۔ بلکہ ایک اصلی اور خطرناک حد تک حقیقی معاملہ سمجھا۔ پیری کے مطابق ’میں کہوں گا کہ ہم بہت قریب پہنچ گئے تھے۔‘
اس موقع پر معلوم ہوا کہ مسئلہ کمپیوٹر کی ایک خراب چِپ کا تھا جو وارننگ سسٹم کو چلا رہا تھا۔ اس چِپ کو تبدیل کر دیا گیا جس کی قیمت ایک ڈالر سے بھی کم تھی۔
ایک سال قبل پیری کو ایک اور اسی طرح کے واقعے کا تجربہ ہوا جب ایک ٹیکنیشن نے نادانستہ طور پر کمپیوٹر پر ایک ٹریننگ ٹیپ لوڈ کر دی اور غلطی سے اہم وارننگ سینٹروں پر میزائلوں کے ایسے حملوں کے بارے میں معلومات بھیج دیں جو خیالی تھے لیکن انتہائی اصلی دکھائی دیتے تھے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسے عمل میں جہاں اس اسلحے کے استعمال کا معاملہ ہو جو شہر کے شہر تباہ کر سکتا ہے وہاں کند ذہن لوگ کام کر رہے ہیں۔ اور اناڑی ٹیکنیشنز کو تو چھوڑیں ہمیں تو ان لوگوں کے بارے میں فکر مند ہونا پڑے گا جن کے پاس اصل میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار موجود ہے یعنی عالمی رہنما۔
پیری کہتے ہیں کہ ’امریکی صدر کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا ’مکمل اختیار‘ ہے اور وہ واحد شخص ہیں جو ایسا کر سکتے ہیں۔‘
یہ اختیار صدر ہیری ٹرومین کے زمانے سے ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ اختیار فوج کے کمانڈروں کو دیا گیا تھا لیکن صدر ٹرومین سمجھتے تھے کہ ایٹمی ہتھیار ایک سیاسی حربہ ہیں اس لیے یہ ایک سیاستدان کے اختیار میں ہونے چاہییں۔
سابق صدور کی طرح موجودہ صدر جو بائیڈن بھی جہاں جاتے ہیں ان کے ساتھ ایک مشیر ہوتا ہے جس کے پاس وہ بریف کیس (نیوکلیئر فوٹبال) ہوتا ہے جس میں ایٹمی حملے کے کوڈ ہوتے ہیں۔ صدر کسی پہاڑ پر موجود ہوں، کسی ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے ہوں یا سمندر میں، اُن کے پاس ایٹمی حملے کی یہ صلاحیت موجود رہتی ہے۔
ان کے صرف یہ الفاظ کہنے کی دیر ہے اور حملہ آور یا جس پر حملہ کیا جا رہا ہے وہ اہداف کچھ ہی منٹ میں تباہ ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے متعدد تنظیموں اور ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ ایک ہی شخص کے پاس اتنی زیادہ طاقت بڑا خطرہ ہے۔
پیری کے مطابق ’ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے کہ ایک صدر بہت زیادہ شراب پی رہا ہے یا کوئی دوا کھانے پر مجبور ہو۔ وہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب ماضی میں ہو چکا ہے۔‘
آپ جتنا اس بارے میں سوچتے ہیں اتنے ہی پریشان کن امکانات سامنے آتے ہیں۔ اگر یہ رات کا وقت ہے تو کیا صدر نیند کی حالت میں یہ فیصلہ کریں گے۔ ان پاس صرف چند ہی منٹ ہوں گے یہ فیصلہ کرنے کے لیے، اور اس دوران نہ تو وہ اپنے ہوش میں ہوں نہ ہی ان کے پاس کافی پی کر ہواس بحال کرنے کا موقع ہو گا، یعنی وہ اپنی بہترین ذہنی کیفیت میں کام نہیں کر رہے ہوں گے۔
اگست سنہ 1974 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن واٹر گیٹ سکینڈل میں پھنسے ہوئے تھے اور مستعفی ہونے والے تھے۔
ان دنوں وہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے اور جذباتی طور پر غیر مستحکم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ تھکے ہوئے دکھائی دیتے تھے، مسلسل شراب پیتے تھے اور ان کا رویہ عجیب سا رہتا تھا۔ خفیہ سروس کے ایک اہلکار نے بظاہر ایک مرتبہ انھیں کتے کا بسکٹ کھاتے دیکھا تھا۔
نکسن مبینہ طور پر غصے میں رہنے، شراب پینے اور ادویات لینے کے عادی تھے لیکن یہ اس سے بہت زیادہ سنگین معاملہ تھا۔ اس ذہنی کیفیت کے باوجود ان کے پاس ایٹمی حملہ کرنے کا اختیار موجود رہا۔
ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پر معمور فوجی اہلکاروں کی نشے کی عادت بھی ایک مسئلہ ہے۔ سنہ 2016 میں امریکہ کے ایک میزائل بیس پر کام کرنے والے فضائی عملے کے کئی ارکان نے کوکین اور ایل ایس ڈی سمیت کئی نشہ آور ادوایات استعمال کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ (ان میں سے چار کو بعد میں سزائیں بھی دی گئی تھیں۔)
ان سب عناصر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ولیم پیری نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’دا بٹن: دا نیو نیوکلیئر آرمز ریس اینڈ پریزیڈینشل پاور فرام ٹرمپ ٹو ٹرمپ۔‘
یہ کتاب انھوں نے ٹام کولینا کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھی ہے جو ایٹمی اسلحے کی تخفیف سے متعلق ایک ادارے ’پلفشیئرز فنڈ‘ میں ڈائریکٹر آف پالیسی ہیں۔
اس کتاب میں ہمارے ایٹمی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ممکنہ حل کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔
سب سے پہلے مصنفین چاہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق ایک شخص کے پاس مکمل اختیار ختم ہونا چاہیے تاکہ ان تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ جمہوری طریقے سے ہو اور فیصلے پر کسی ذہنی مسئلے کے اثر کا خدشہ کم سے کم ہو جائے۔
امریکہ میں یہ تبدیلی کانگریس میں ووٹ کے ذریعے آ سکتی ہے۔
پیری کہتے ہیں کہ اس طرح ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت لگے گا۔ ’عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ جوابی حملے کی صلاحیت تباہ ہو جانے سے پہلے کرنا چاہیے لیکن اگر کئی شہر اور زمین پر موجود تمام میزائل تباہ بھی ہو جائیں تو آب دوزوں پر موجود ایٹمی میزائلوں کو پھر بھی داغا جا سکتا ہے۔‘
کتاب کے شریک مصنف ٹام کولینا کہتے ہیں کہ ‘ہمیں کسی الارم کی صورت میں جواب نہیں دینا چاہیے کیونکہ الارم غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ایٹمی حملے کی تصدیق کا صرف ایک ہی صحیح معنوں میں درست اور قابلِ اعتماد طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہم میزائلوں کے گرنے کا انتظار کریں۔‘
ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے فیصلے میں زیادہ سوچ بچار اور کم رفتار سے آگے بڑھنے کا مطلب ہے کہ ایٹمی جنگ کے غلطی سے شروع ہونے کا خدشہ واضح طور پر کم ہو جائے گا۔
دوسری بات جس پر پیری اور کولینا نے زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایٹمی طاقتیں یہ وعدہ کریں کے وہ ان ہتھیاروں کا استعمال صرف جواب میں کریں گی یعنی پہلے استعمال نہیں کریں گی۔
کولینا کہتے ہیں کہ ’چین ایک دلچسپ مثال ہے کیونکہ اس کی پہلے ہی یہ پالیسی ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا۔ چین کی اس پالیسی میں سچ بھی دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے میزائلوں سے الگ رکھا ہوا ہے یعنی یہ ہتھیار اور انھیں لے جانے والا نظام الگ الگ ہیں۔‘
اس کا مطلب ہے کہ چین کو ایٹمی حملہ کرنے سے پہلے اپنے ہتھیاروں کو اپنے میزائلوں پر نصب کرنا ہو گا۔ جب چین ایسا کرے گا تو سیٹلائٹ سے نگرانی کرنے والوں کو اس بارے میں معلوم ہو جائے گا۔
دوسری جانب امریکہ اور روس کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ وہ ایٹمی حملہ کرنے کا اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں اور وہ روایتی ہتھیاروں کے حملے کے جواب میں بھی ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ صدر اوباما کی انتظامیہ نے ایٹمی ہتھیاروں کو ’پہلے استعمال نہ کرنے‘ کی پالیسی پر غور کیا تھا لیکن وہ اس بارے میں کو فیصلہ نہیں کر سکے تھے۔
آخر میں کتاب کے مصنفین کی دلیل ہے کہ یہ تمام ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گا کہ وہ زمین پر موجود اپنے بین البراعظمی میزائلوں کو مکمل طور پر تلف کر دیں کیونکہ آنے والے ایٹمی حملے میں یہ سب سے پہلے تباہ ہوں گے۔
یہ وہی ہتھیار ہیں جو کسی بھی مشتبہ ایٹمی حملے کی صورت میں جلدی میں تعینات کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح کسی غلطی کا خدشہ مزید کم ہو جائے گا۔
کولینا کا کہنا ہے کہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم جوہری میزائلوں کو فعال بنانے کے بعد انھیں فوری طور پر غیر فعال بنانے کے نظام پر بھی کام کریں تاکہ اگر ایسا کسی غلطی کے باعث ہوا ہو تو تباہی سے بچا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب تجربات کیے جاتے ہیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ میزائل لانچ ہونے کے بعد خود بخود تباہ بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسا ہم اصلی میزائلوں میں نہیں کرتے کیونکہ خدشہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دشمن کے پاس ان کا کنٹرول آ گیا تو وہ انھیں غیر فعال بنا دے گا۔‘
اس کے علاوہ بھی ایسے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے ایک ملک کی اپنی ہی ٹیکنالوجی کو اس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ہم جدید کمپیوٹر پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں جس کے باعث یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ وائرسز، ہیکرز یا مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے بوٹس کی مدد سے ایک جوہری جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
کولینا کا کہنا ہے کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ سائبر حملوں میں اضافے کے بعد غلط الارمز کا چانس بڑھ گیا ہے۔‘ مثال کے طور پر ان سائبر حملوں کے ذریعے ایک کنٹرول سسٹم کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ میزائل آ رہا ہے جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ صدر کے پاس جوابی حملہ کرنے کا جواب موجود ہو سکتا ہے۔
بڑا مسئلہ یقیناً یہ ہے کہ ممالک چاہتے ہیں کہ ان کے ایٹمی ہتھیار زیادہ موثر، جدید اور استعمال میں آسان ہوں، ایک بٹن دبایا اور چل پڑیں۔ اس وجہ سے ان کے استعمال کو لگام دینا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
اگرچہ سرد جنگ ختم ہو چکی ہے۔ لیکن کولینا کے مطابق دنیا کو اب بھی کسی بھی وقت بلا اشتعال ایٹمی حملے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سب سے بڑا خطرہ تو خود میزائلوں کو داغنے والے وہ نظام ہیں جنھیں ہماری حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے۔