پاکستان میں ذیابیطس کی صورت حال دن بدن تشویشناک ہوتی جا رہی ہے،طبی ماہرین
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کی صورت حال دن بدن تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ شہری ذیابیطس سے نبرد آزما ہیں۔
رپورٹ (وائس آف جرمنی): اس خطرناک شرح کی وجہ سے پاکستان سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریضوں کی آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی کے مطابق پاکستان دنیا میں چین اور انڈیا کے بعد مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے۔
انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے مطابق 2021 میں پاکستان میں اس بیماری نے چار لاکھ افراد کی جان لی۔پاکستان میں مزید ایک کروڑ بالغ افراد میں اس مرض کی ابتدائی علامات دیکھنے میں آئی ہیں۔ ذیابیطس کے تقریباً 80 سے 90 لاکھ افراد کی تشخیص نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ سے بروقت علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا ایک تہائی خواتین اب ذیابیطس کا شکار ہیں جبکہ 1990 میں یہ تعداد دسویں حصے سے بھی کم تھی۔بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین کی ٹیم نے اندازہ لگایا کہ اسی کروڑ سے زیادہ افراد اب ذیابیطس کے مریض ہیں جبکہ 1990 میں یہ تعداد بیس کروڑ سے بھی کم تھی۔ان اعداد و شمار میں ذیابیطس کی دونوں اہم اقسام شامل ہیں۔ ٹائپ 1 کم عمری سے ہی مریضوں کو متاثر کرتا ہے اور اس کا علاج کرنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ یہ انسولین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
2024 سے لے کر 2026 تک کے دورانیے میں ذیابیطس کے عالمی دن کا موضوع ’ذیابیطس اور فلاح و بہبود‘ ہے جس میں ذیابیطس کے مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کی مدد تک رسائی پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دنیا میں سائنسی میدان میں بےشمار ترقی کے باوجود ہر دسواں شخص ذیابیطس کا شکار ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ذیابیطس کے 50 فیصد مریض اب بھی غیر تشخیص شدہ ہیں۔ اس سے ذیابیطس کے مریضوں میں دل کی بیماری، گردے کی خرابی، اعصابی عوارض، فالج اور اندھے پن جیسی پیچیدگیوں کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ذیابیطس کی شرح جاپان، کینیڈا یا فرانس اور ڈنمارک جیسے مغربی یورپی ممالک جیسے کچھ امیر ممالک میں یکساں رہی یا اس میں کمی واقع ہوئی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ذیابیطس اور غیر علاج شدہ ذیابیطس کا بوجھ کم آمدنی والے اور متوسط آمدنی والے ممالک کی جانب سے تیزی سے برداشت کیا جا رہا ہے۔پاکستان کو بھی ذیابیطس کے چیلنج کا سامنا ہے اور ہمارے تقریباً تین کروڑ شہری ذیابیطس کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔ اس خطرناک شرح کی وجہ سے پاکستان سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریضوں کی آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
پاکستان میں مزید 11 ملین بالغ افراد میں اس مرض کی ابتدائی علامات دیکھنے میں آئی ہیں۔ ذیابیطس کے تقریباً 80 سے 90 لاکھ افراد کی تشخیص نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ سے بروقت علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے۔پاکستان میں ذیابیطس کے خطرے کے بڑے عوامل میں جینیاتی تغیرات، غیرمناسب خوراک اور غیر فعال طرز زندگی کے علاوہ ماحولیاتی اور جغرافیائی وجوہات شامل ہیں۔
ایک سرکاری بیان میں حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ذیابیطس کے مریضوں میں اس بڑھتے ہوئے اضافے پر قابو پانے اور ذیابیطس کے مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے غیر متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے صحت کے شعبے میں اہم اصلاحات شروع کی ہیں، جن میں ذیابیطس کو اہم ترجیح دی گئی ہے۔ حکومتی سطح پر ذیابیطس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے مختلف پروگرام تیار کیے جا رہے ہیں۔
’وفاق میں ہم وزارت صحت کے تعاون سے ذیابیطس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے وزیر اعظم کا پروگرام (Prime Minister’s Program for Prevention and Control of Diabetes Mellitus) شروع کریں گے۔ اس پروگرام کا مقصد وفاقی علاقوں میں اس بیماری پر قابو پانا اور تمام صوبوں میں ذیابطیس کے مریضوں کے لیے یونیورسل ہیلتھ کوریج، تشخیص اور علاج فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ آگاہی اور طرز زندگی بہتر بنانا ہے۔‘
حکومت پاکستان سب کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔ ایک خوشحال مستقبل کے لیے، معیشت کا انحصار شہریوں سے بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے پر ہے۔صحت مند پاکستان ذیابیطس جیسی بیماریوں کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔