شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد…..حیدر جاوید سید
عرب دنیا میں لبنان کے سوا تقریباً سبھی نے حیات التحریر کی فتح کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی وزات خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے ’’شامی عوام کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر مطمئن ہیں‘‘۔
شام میں پہلی دو بغاوتوں کی ناکامی کے بعد بشار الاسد کے خلاف تیسری بغاوت کامیاب ہوگئی۔ بشار الاسد کے خاندان کے ہمراہ روس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی روس نے سرکاری طور پر تصدیق کردی۔
شام میں خلفشار 12 /2011 ء سے جاری تھا اس کا ایک ظاہری انجام اتوار کی صبح ہوا۔ ” حیات التحریر شام‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ قبل بننے والی تنظیم نے شامی حکومت کو محض 11 دن میں ڈھیر کردیا۔
حیات التحریر کے جنگجو اچانک شام میں داخل ہوئے اور فتوحات سمیٹتے آگے بڑھتے گئے ان کا حلب پر قبضہ جتنا حیرت ناک تھا اس سے زیادہ حیرت ان کی فتح دمشق رہی۔ پچھلی دو بغاوتوں میں بشارالاسد کے مربی و معاون اور سرپرست بنے روس، چین اور ایران نے اس بار صرف بیانات کے اجراء پر ہی گزارا کیاالبتہ روس نے ایک قدم آگے بڑھ کر شامی صدر (اب سابق) اوران کے خاندان کو اپنے ہاں سیاسی پناہ دے دی۔
باغی تنظیم حیات التحریر شام کے سربراہ محمدالجولانی اس وقت مغرب عرب دنیا اور امریکہ کی آنکھوں کا تارا ہیں لیکن قبل ازیں امریکہ نے ہی اس کے سر کی قیمت 10 ملین ڈالر مقرر کررکھی تھی۔ الجولانی نے دمشق کی جامعہ مسجد امیہ میں خطاب کرتے ہوئے "اسرائیل، ترکی،امریکہ اوران تمام قوتوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لئے ان (حیات التحریر) سے تعاون کیا ” ۔
عرب دنیا میں لبنان کے سوا تقریباً سبھی نے حیات التحریر کی فتح کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی وزات خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے ’’شامی عوام کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر مطمئن ہیں‘‘۔
یہ اطمینان بھرا سرکاری موقف اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ شام میں جوکچھ ہوا اور جیسے ہوا اس میں کون کون حیات التحریر کا پشت بان تھا۔
حیات التحریر کی فتح اور بشار رجیم کی شکست پر بات کرتے ہیں مگراس سے قبل ہمارے ہاں (پاکستان میں) مختلف الخیال دیسی بدوئوں کی باسی کڑی میں ابال آیا ہوا ہے اور بالخصوص ایک عظیم جمہوریت پسند انقلابی صحافی و اینکر جن کی ایک شہرت یہ ہے کہ انہوں نے ایک بار میر شکیل الرحمن کو اپنے ایگزیکٹوایڈیٹر کے خلاف خط میں لکھا تھا کہ ایگزیکٹو ایڈیٹر مجھ سے جنسی آسودگی کے خواہش مند ہیں اور دوسری شہرت یہ ہے کہ رپورٹر سے اچانک روزنامہ پاکستان لاہور کے ایڈیٹر مالک کو یہ کہہ کر بنوائے گئے کہ بی بی صاحبہ (محترمہ بینظیر بھٹو) چاہتی ہیں کہ یہ آپ کے اخبار کے ایڈیٹر ہوں۔ پیغام پہنچانے والے اس وقت آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کے سربراہ تھے۔
حال ہی میں ان کی ایک تیسری شہرت بھی سامنے آئی وہ یہ کہ موصوف نے ہر مرنے والے سے آخری ملاقات ضرور کی ہے ان کا تازہ آخری ملاقاتی ڈی چوک کا مقتول شفیق لُنڈ ہے۔
یہ حضرت اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر شام کے نئے منظرنامے کے حوالے سے جو بونگیاں مار رہے ہیں اس سے تقسیم شدہ پاکستانی سماج میں نفرت کا کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہی ہوگی۔
اسی طرح ہمارے ہاں کے مختلف الخیال دیسی بدو ہیں جو دنیا کے کسی بھی مثبت و منفی واقعہ کے بعد اپنی اپنی زنبیل سے ایک مجہول روایت لے کر نمودار ہوتے ہیں شام کے حالیہ واقعات پر بھی دیسی بدوئوں کے مختلف ’’دانشوڑ ‘‘ مجہول روایات سمیت مارکیٹ میں ہیں اور اپنے اپنے ہم خیالوں سے داد سمیٹ رہے ہیں۔
ہر دو سے درخواست ہے کہ اپنے خوانچے بڑھالیں کیونکہ انکے خوانچوں پر فروخت کی جانے والی اشیاء زہریلی ہیں۔ شام کے حالیہ منظرنامے میں اسرائیل، ترکی، سعودی عرب، امریکہ اوریو اے ای کا کردار بہت اہم ہے۔ حیات التحریر کے جنگجوئوں کی تربیت اور پیش قدمی کے لئے بنیادی کردار انہیں ریاستوں نے ادا کیا۔
یہ جنگجو ترکی کے راستے شام میں داخل ہوئے اور ابتداً حلب پر قابض ہوگئے اس ابتدائی فتح پر بشار حکومت نے الزام لگایا تھا کہ ترک فضائیہ نے جنگجوئوں کی حلب تک رسائی میں معاونت کی ہے خیر اب یہ الزام تاریخ کا رزق ہوا۔
اس وقت سب سے اہم بیان اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا ہے اس نے بشارالاسد کے زوال کو مشرق وسطیٰ کے لئے تاریخی دن قرار دیتے ہوئے کہا ’’ایران کی مزاحمت کی مرکزی کڑی توڑ دی گئی ہے‘‘۔ اسرائیل کے زیرقبضہ شامی علاقے گولان کی پہاڑیوں کے دورہ کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’یہ ان حملوں کا براہ راست نتیجہ ہے جو ہم نے اسد کے حامیوں ایران اور حزب اللہ پر کیئے نتن یاہو نے شام سے اسرائیل کے 1974ء کے معاہدے کے خاتمے کا بھی اعلان کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان سے کچھ دیر قبل اسرائیلی فوج گولان کے پہاڑی راستوں سے شام میں داخل ہوئی اور 4 اہم سرحدی قصبات پر قبضہ کر کے وہاں کرفیو نافذ کردیا۔
ہمارے ہاں جو مختلف الخیال لوگ شام کے معاملے پر فرقہ وارانہ توپوں کے دہانے کھولے گولہ باری میں جُتے ہوئے ہیں انہیں عقیدوں کنوئوں سے نکل کر زمینی حقائق کو دیکھنا سمجھنا ہوگا۔
مصیبت یہ ہے کہ شام کے معاملے کا تجزیہ کرتے ہوئے اگر مسلم دنیا کے عرب حصے کے کردار پر بات کی جائے تو ایک طبقہ کفر کے فتوے دینے لگتا ہے اور اگر مشرق وسطی میں سیاسی اور عسکری طور پر خود کو اہم فریق منوانے کے لئے پچھلے تقریباً 46 برسوں سے سرگرم عمل ایران کی پالیسیوں اور ان کے نفع نقصان پر بات کی جائے تو یہاں کے ایران نواز حلقے برا ہی نہیں مناتے بلکہ فوراً اسرائیلی پٹھو ہونے کا فتویٰ جھڑ دیتے ہیں۔
اس فرقہ وارانہ تنگ نظری نے ہمارے ہاں آزاد تجزیہ پنپنے ہی نہیں دیا۔ مثال کے طور پر اتوار کی صبح سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے کاپی پیسٹ ماسٹرز جو کچھ اپنی اپنی وال پر شیئر کررہے ہیں اس کی پاکستان میں بسنے والے لوگوں کو کتنی ضرورت ہے اور کیا اس سے چار اور کے لوگوں کی کوئی خدمت ہوپائے گی؟
ہماری رائے میں فرقہ پسندی کے زہر کو مزید پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ بشارالاسد کو دیس نکالے پر مجبور کرنے والی حیات التحریر کے جنگجو فکری طورپر القاعدہ اور داعش کے ہم خیال ہیں یہی نہیں بلکہ ان کی اکثریت کا تعلق بھی انہی دوتنظیموں اور سابق النصرہ فرنٹ سے ہے ۔
دوسری بات ان کی حالیہ فتوحات کی ہلکی پھلکی مزاحمت تو ہوئی لیکن ایسی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی جس سے اندازہ ہوسکے کہ کون کس طرف کھڑا تھا۔ یا یہ کہ کیا ماضی میں سرگرم عمل رہنے والی غیرمقامی ملیشیائوں نے اس بار بھی شامی حکومت کو بچانے کے لئے کوئی کردار ادا کیا۔
یہ بھی درست ہے کہ ماضی کی دو بغاوتوں جن کی ابتداء 2011ء سے ہوئی میں ا یران، ایران نواز لبنانی حزب اللہ اور چند دوسری مسلح تنظیمیں بشار حکومت کی نہ صرف ہمنوا تھیں بلکہ انہوں نے داعش کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
یہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسی عرصے میں عراق میں شکست کھانے والی داعش کے خلاف صرف مقامی مزاحمت کامیاب ہوئی اور یہ مقامی مزاحمت ایک بڑے شیعہ عالم دین آیت اللہ سید سیتانی کے فتویٰ پر شروع ہوئی جس کی بعدازاں اہلسنت عراق کے مفتی اعظم نے بھی تائید کی تھی۔
اُن برسوں میں ہم نے ان سطور میں عرض کیا تھاکہ
” عراق اور شام میں داعش کے ظہور اور اس کی سفاکانہ کارروائیوں کا مقصد فرقہ وارانہ سے زیادہ خطے میں اسرائیل کی ناقابل تسخیر حیثیت کو منوانے کے ساتھ تین عرب ممالک میں مذہبی سیاحت کے بڑھتے رجحان کے باعث شام اور عراق کا اس مذہبی سیاحت میں اپنا حصہ لینا بھی ہے ”
جس کے حوالے سے ایک طبقہ یہ کہہ رہا تھا کہ عراق اور شام میں مذہبی سیاحت کے بڑھنے سے اس وقت کی سعودی قیادت ناراض ہے اس رائے کا تجزیہ کرتے ہوئے تب بھی عرض کیا تھا کہ
” یہ اس لئے درست نہیں کہ سعودی عرب کی مذہبی سیاحت حج و عمرہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں یکساں اہمیت رکھتا ہے البتہ عراق و شام کی مذہبی سیاحت 90 فیصد تو اہل تشیع کے جملہ عقائد کے جذبات سے عبارت ہے10 فیصد زائرین کا تعلق صوفی سنیوں، اسماعیلی شیعہ اور بورہ شیعہ وغیرہ سے ہے” ۔ پیارے قارئین آج کا کالم سقوط شام یا فتح شام پر تمہیدی سطور پر مشتمل ہے ہم آئندہ کالموں میں شام کے حالیہ منظرنامے کے پس منظر، علاقائی و عالمی سیاسی مفادات اور دیگر نکات پر بات کریں گے۔
آج کے لئے فقط یہی کہ یہ صرف یک رُخی معاملہ ہر گزنہیں اور یہ بھی کہ حماس اور حزب اللہ کی بربادی نے حیات التحریر کے تجربے کی کامیابی میں کردارادا کیا ہے۔
حماس اور حزب اللہ کیوں تباہ ہوئیں یہ ایسا سوال نہیں کہ جواب کے لئے لمبی چوڑی مغزماری کی ضرورت پڑے۔ (جاری ہے)