حکومت کی جانب سے فائیو جی آکشن کی بولی سے پہلے انڈسٹری میں اصلاحات ہونی چاہییں، ٹیلی کام کمپنیز
ٹیلی کام آپریٹرز موجودہ حکومتی شرائط پر اس میں حصّہ لینے کے لیے تاحال تیار نظر نہیں آتے اور اس کے لیے موجودہ ماحول کو غیر موافق قرار دے رہے ہیں
(سید عاطف ندیم،لاہور)پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار کو سست کرنے کے اقدامات نے ملک میں فائیو جی ٹیکنالوجی لانے کے عمل کو بھی متاثر کیا ہے اور موجودہ صورت حال میں اس کی متوقع بولی کو ملتوی کرنے یا اس کی شرائط مکمل طور پر نرم کرنے کے مطالبات بڑھ گئے ہیں۔اگرچہ حکومت نے یہ واضح کیا ہے کہ اپریل 2025 میں فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے بولی کا انعقاد کیا جائے گا تاہم، ٹیلی کام آپریٹرز موجودہ حکومتی شرائط پر اس میں حصّہ لینے کے لیے تاحال تیار نظر نہیں آتے اور اس کے لیے موجودہ ماحول کو غیر موافق قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کی مرکزی حکومت نے ملک میں انٹرنیٹ پر کنٹرول رکھنے کے لیے حال ہی میں فائروال نصب کی ہے اور انٹرنیٹ سپیڈ کو سست کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں تاکہ غیر مطلوبہ مواد کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس سے صارفین کو مواد بھیجنے اور وصول کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم اب ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ یہ اقدامات نہ صرف وقتی طور پر انٹرنیٹ تعطل کا باعث ہیں بلکہ ان کی وجہ سے مستقبل میں انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی ترقی کا عمل بھی سست ہو رہا ہے۔
پاکستان کے ٹیلی کام سیکٹر کے ذمہ دار عہدیداران اور حکومت کے اراکین نے تصدیق کی ہے کہ ملک میں فائیو جی ٹیکنالوجی لانے کا عمل جو پہلے ہی انڈسٹری اور حکومت کے مابین پالیسی اختلافات کی وجہ سے تاخیر کا شکار تھا اب حکومت کی انٹرنیٹ کی رفتار سست کرنے کی پالیسی کا بھی نشانہ بن رہا ہے۔
دوسری طرف حکومت بولی کے لیے حالات سازگار بنانے کی غرض سے لگائے گئے امریکی کنسلٹنٹ کی ایک مجوزہ رپورٹ سے اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے کہ یہ رپورٹ کچھ ایسا حل تجویز کرے گی جس پر حکومت اور ٹیلی کام کمپنیاں دونوں متفق ہوں گی۔
امریکی کنسلٹنٹ نیشنل اکنامک رسرچ ایسوسی ایٹس (نیرا) ٹیلی کام آپریٹرز اور حکومت سے بات چیت کرکے فائیو جی ٹیکنالوجی کی بولی کو ممکن بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔مگر ٹیلی کام آپریٹرز نے واضح کیا ہے کہ حکومت کو بولی کے کامیاب انعقاد کے لیے لائسنس فیس کی پاکستانی کرنسی میں وصولی، ٹیکس کی شرح کم کرنے اور 2600 بینڈ سپیکٹرم کی دستیابی یقینی بنانی چاہیے۔
پاکستان میں کام کرنے والے ٹیلی کام آپریٹرز ایسوسی ایشن نے بتایا کہ کچھ حکومتی حلقے فائیو جی ٹیکنالوجی کی بولی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں اس وقت اتنی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی بھی کمپنی فائیو جی کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ایک بڑی رقم ادا کرے کیونکہ اس کے بعد اس کمپنی کے پاس فائیو جی انفراسٹرکچر بنانے کے لئے سرمایہ کاری نہیں بچے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپپیکٹرم کی پچھلی بولی تیس ملین ڈالر کی ہوئی تھی جبکہ اب خواہش کی جا رہی ہے کہ یہ پانچ گنا زیادہ ہو جو کہ ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ لائسنس کی بولی میں اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کے بعد نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔دنیا کے کئی ممالک جن میں چین بھی شامل ہے نے ٹیکنالوجی کے لائسنس مفت دیے ہیں جس کی وجہ سے وہاں معیار اور لوگوں کے لیے سہولیات میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی حکومت کو بھی چاہیے کہ پہلے پانچ یا سات سال کے لیے اس ٹیکنالوجی کو مفت فراہم کیا جائے تاکہ لائسنس فیس سے بچنے والی رقم ملک میں ترقی، لوگوں کو روزگار دینے اور نیٹ ورک بہتر بنانے پر خرچ کی جا سکے۔‘
پاکستان میں کام کرنے والی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی جاز کی طرف سے بھی ایسے ہی تاثرات ظاہر کیے گئے ہیں کہ حکومت کی جانب سے فائیو جی آکشن پر بات چیت کی گئی تھی تاہم سٹیک ہولڈرز کا ماننا یہ ہے کہ اس بولی سے پہلے انڈسٹری میں اصلاحات ہونی چاہییں۔ حکومت فائیو جی لائسنس کی فروخت کی قیمت ڈالرز میں وصول کرنا چاہتی ہے جبکہ ٹیلی کام آپریٹرز نے صارفین کو اپنی خدمات پاکستانی روپے کے عوض فراہم کرنی ہیں جس کی وجہ سے ان کا کاروباری ماڈل منافع بخش نہیں رہتا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی کامیاب بنانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے چاہییں جس سے حکومت، صارفین اور ٹیلی کام آپریٹر سب کو فائدہ ہو۔
تاہم کچھ ٹیلی کام ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کا عوام کو براہِ راست کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کا فائدہ انڈسٹری کو ہے لیکن پاکستان میں انڈسٹری کا انفراسٹرکچر ابھی اتنا آگے نہیں بڑھا کہ اس کے لیے فائیو جی ٹیکنالوجی درکار ہو۔پاکستان کی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق پاکستان کے عام لوگوں کو صرف موبائل فون ایپس چلانے کے لیے انٹرنیٹ کی اچھی رفتار درکار ہے اور ان کی یہ ضرورت فور جی سے بخوبی پوری ہو رہی ہے۔لیکن حکومت اب خود ہی انٹرنیٹ کی رفتار آہستہ کر کے ان ایپس کو چلانے میں بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے جس سے ایک نیا سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا واقعی پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’فائیو جی جیسی ٹیکنالوجی بڑے آئی ٹی منصوبوں جیسے سمارٹ شہروں اور صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ایسے منصوبوں کے لیے ابھی کوئی انفراسٹرکچر نہیں بنا۔ اگر حکومت ایسے منصوبوں کا سٹرکچر نہیں بنا رہی تو پھر یہ فائیو جی ٹیکنالوجی کیوں لانا چاہ رہی ہے۔جو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پہلے سے ملک میں موجود ہے حکومت اس کی کارکردگی کو خود ہی کم یا خراب کر رہی ہے تو ایسی صورت میں مزید تیز رفتار اور موثر انٹرنیٹ لانے کی منطق سمجھ نہیں آ رہی۔‘
دوسری طرف حکام کا کہنا ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی لانے کا مقصد ملک میں انٹرنیٹ نیٹ ورک کی کوریج اور معیار بہتر بنانا ہے۔ہمارا مقصد ملک میں انٹرنیٹ کی کوریج بہتر بنانا ہے اور اس کے لیے ہم ایسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے سٹیک ہولڈرز، صارفین اور حکومت سب کو فائدہ پہنچے۔انہوں نے کہا کہ توقع کی جا رہی ہے کہ فائیو جی کے لیے لائے گئے امریکی کنسلٹنٹ نیرا کی رپورٹ جنوری میں آ جائے گی جس میں ٹیلی کام آپریٹرز کے تحفظات دور کرنے کے لئے آپشنز اور حل موجود ہوں گے اور اس کے بعد حکومت بولی کے عمل کو آگے بڑھا سکے گی۔