
یہ "نفرت فروش” کون تھے؟؟؟ ….امجد عثمانی
ایک" لازمی باب" ہے تو وطن عزیز کے پرچم سے دستور تک،اقلیتوں کے حقوق کی واضح "جھلک" بھی ملتی ہے۔۔۔۔۔اسلامی اسلوب یہ ہے کہ مسلمانوں کی صبح کا آغاز جس کتاب ہدایت قرآن مجید سے ہوتا ہے
فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا برا ہوا۔۔۔۔۔۔یہ "اسلامی بیانیہ” ہے نہ "پاکستان کا چہرہ”۔۔۔۔۔۔اسلام کے منشور حیات میں اقلیتوں سے حسن سلوک
ایک” لازمی باب” ہے تو وطن عزیز کے پرچم سے دستور تک،اقلیتوں کے حقوق کی واضح "جھلک” بھی ملتی ہے۔۔۔۔۔اسلامی اسلوب یہ ہے کہ مسلمانوں کی صبح کا آغاز جس کتاب ہدایت قرآن مجید سے ہوتا ہے اس میں جگہ جگہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کے فضائل کا تذکرہ ملتا ہے۔۔۔۔۔۔اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ان برگزیدہ ہستیوں کے اوصاف حمیدہ کا ذکر موجود ہے۔۔۔۔۔مسلمان گھرانوں میں تو ان دو مبارک ناموں کی گونج صبح سے شام سنائی دیتی ہے کہ کسی گھر میں بیٹے کا نام عیسٰی ہے تو کسی گھر میں بیٹی کا نام مریم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی دوسرے مذہب کی مقدس شخصیات کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھنا عقیدت کی ایک ایسی اعلی مثال ہے شاید دنیا میں جس کی کوئی مثال نہ ملے۔۔۔سوال یہ ہے کہ ہمیں ادب کا یہ قرینہ کس نے سکھایا؟جواب ہے کہ قرآن مجید اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ روشنی بخشی۔۔۔۔!!!پھر کوئی بدبخت ہی ہو سکتا ہے جو قرآن مجید ایسی محبت انگیز کتاب کی توہین کا سوچے۔۔۔۔کوئی ملعون ہی ہو سکتا ہے جو محبتیں بانٹنے والے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی تنقیص کا خیال بھی کرے۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح کوئی شرپسند ہی ہو سکتا ہے جو قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات کے برعکس قانون پسند مسیحی اقلیت کے گھروں یا عبادت گاہوں کو پامال کرے۔۔۔۔یہ وہ جرائم ہیں جنہیں سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔۔۔۔مکرر عرض ہے کہ یہ "اسلامی بیانیہ” ہے نہ پاکستان کا چہرہ۔۔۔۔۔کیا یہ سچ نہیں کہ روز مرہ زندگی میں وطن عزیز کی مساجد کے محراب و منبر سے کبھی ایسی نفرت انگیز آواز گونجتی ہے نہ ملک کے گلی محلوں میں کوئی ایسا تعصب نظر آتا ہے؟؟؟ہاں ہجوم کی بات اور ہے اور ہجوم کسی مذہب کی نمائندگی کرتا ہے نہ کسی ملک کی عکاسی۔۔۔۔۔۔ہجوم ایک "شتر بے مہار” گروہ ہوتا ہے جس کا دنیا کے دوسرے مذہب اور ممالک کی طرح اسلام اور پاکستان پر بھی اطلاق قرین انصاف نہیں۔۔۔۔۔ہجوم مغرب کا ہو یا مشرق کا، ہجوم ہی کہلائے گا۔۔۔۔۔۔۔نام نہاد روشن خیال تو فرضی باتیں کرتے اور محض اقلیتوں کے زخموں کی تجارت کرتے ہیں۔۔۔۔میں آپ بیتی کہہ رہا ہوں کہ چند سال پہلے ایک ہی عمارت میں ایک مسیحی خاندان دو برس کے لیے ہمارا ہمسایہ ٹھہرا۔۔۔۔۔۔وہ فرسٹ اور ہم سیکنڈ فلور میں رہائش پذیر تھے۔۔۔۔۔ہم نے ان دو سال میں ان کو دو مرتبہ کرسمس پر کیک بھجوایا۔۔۔۔ان کے والد کے انتقال پر ان کے پاس جاکر ان سے اظہار افسوس کیا۔۔۔۔۔۔ان کی بیٹی کی منگنی پر اپنے رواج مطابق "سلامی” دی۔۔۔۔۔۔دو سال بعد جب وہ رخصت ہونے لگے تو ان کی بیٹیاں بچوں کی طرح رونے لگیں کہ ہمارا یہاں سے جانے کو دل نہیں کر رہا ۔۔۔دعا کریں کہ ہمیں آگے بھی کوئی ایسا پڑوسی مل جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے یاد ہے کہ میں اکثر ان کے بیٹے کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی پر بات کرتا۔۔۔۔میں اسے بتاتا کہ قرآن مجید بھی کیا ہی معتدل کتاب ہے کہ اس میں کسی خاتون کے نام سے صرف ایک ہی سورت ہے اور وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہ السلام سے منسوب ہے۔۔۔۔میں اسے بتاتا کہ قرآن مجید میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اسم گرامی بھی بار بار آیا ہے۔۔۔۔۔ایسی ہی آپ بیتی عیسٰی نگری میں افضال مسیح کے ہم سائے محمد ارشد نے کہی ہے۔۔۔۔۔بی بی سی سے بات کرتے انہوں نے پاکستانی کلچر کی کہانی سنائی اور کہا کہ پینتالیس سال سے ادھر رہائش پذیر ہیں۔۔۔۔کبھی یہاں رہنے والے مسیحی اور مسلمان برادری کے افراد کو آپس میں لڑتے نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ ہمارے گھروں میں آتے ہیں۔۔۔۔ ہم ان کے گھروں میں جاتے ہیں۔۔۔۔ایک دوسرے کی طرف کھانے بھجواتے ہیں۔۔۔۔شادی بیاہ کے مواقع پر ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔۔۔۔محمد ارشد نے بتایا کہ ہماری خواتین نے بھی مسیحی برادری کے محلے میں رات کے پہر جاتے ہوئے خود کو کبھی غیر محفوظ محسوس نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح ان کی خواتین بھی ہمارے گھروں میں آسانی سے آتی جاتی ہیں۔۔۔ ہمارے تو آپس میں اس قسم کے تعلقات ہیں۔۔۔۔محمد ارشد نے حقائق بتائے کہ وقوعہ کی صبح لوگ ٹہلنے کے لیے گھروں سے نکلے تو انہوں نے گلی کی نکڑ پر چند اوراق بکھرے دیکھے، جن پر سرخ سیاہی سے کچھ تحریر ہوا تھا۔۔۔۔۔ساتھ ہی اسی سرخ سیاہی سے لکھی ایک ہاتھ کی تحریر بھی تھی۔۔۔۔اسی تحریر کے اوپر دو لوگوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں اور ساتھ میں ان کے نام، ٹیلیفون نمبر اور پتے بھی درج تھے۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں محلے والے ان تصاویر میں موجود باپ بیٹے کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے۔۔۔۔محلے میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ ایسا اقدام کر سکتے ہیں۔۔۔۔ہم کئی دہائیوں سے انہیں جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد ارشد کو اس بات پر بھی تعجب ہے کہ اگر کوئی شخص غلط کام کرے گا تو وہ خود اپنا نام اور پتا کیوں بتا کر جائے گا؟وہ اور ان کے ساتھ محلے میں رہنے والے دیگر افرادسمجھتے ہیں کہ مسیحی برادری کے ان افراد کو کسی نے پھنسانے کی کوشش کی تھی مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہو سکتا ہے اور ایسا کیوں کرنا چاہتا ہے؟؟جلائو گھیرائو کے دوران مسیحی گھروں پر پہرہ دینے والے محمد ارشد کہتے ہیں ان کے محلے کا کوئی مسلمان شخص مسیحی ہمسائیوں کے گھروں کو جلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن لوگوں نے یہ کام کیا وہ یہاں کے نہیں تھے۔۔۔۔وہ لوگ آس پاس کے دیہات سے آئے تھے یا دوسرے علاقوں سے یہاں آئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی یہی گواہی دی ہے کہ جب کشیدگی اور افراتفری بڑھی تو کئی مسلمان سڑکوں پر نکلے تاکہ اپنے مسیحیوں ہم سایوں کو بچائیں اور انہیں اپنے ہاں پناہ دیں۔۔۔۔۔پادری جاوید بھٹی نے بھی اعتراف کیا کہ مشتعل ہجوم باہر سے آیا مگر مقامی مسلمانوں نے ہماری مدد کی اور ہمیں بچانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید بھٹی کی گلی کے رہائشی طارق رسول نے انکشاف کیا کہ مشتعل ہجوم کو آتا دیکھ کر مقامی مسلمانوں نے فوری طور پر مسیحیوں کے گھروں کے دروازوں پر قرآنی آیات چپکائیں تاکہ تشدد نہ پھیلے۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ دو مسیحی خواتین دوڑ رہی تھیں۔۔۔۔۔میں نے اپنے گھر کا دورازہ کھولا اور انہیں اندر آنے دیا۔۔۔۔ وہ ڈری ہوئی تھیں۔۔۔۔میں نے انہیں حوصلہ دیا۔۔۔۔۔چرچ آف پاکستان کے بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔۔۔۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے ابھی تک کوئی مسلم سکالر نہیں ملا جو جڑانوالہ کے واقعات کو صحیح سمجھتا ہو۔۔۔۔مگر معلوم نہیں کہ یہ نفرت کہاں سے ابھر رہی ہے۔۔۔یہ ایک ناقابل یقین صورتحال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسیحی بستی میں اقامت پذیر مسلمان شہریوں اور چرچ آف کے پاکستان کے بشپ کے سوالات بڑے اہم ہیں۔۔۔۔۔اہم سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی توہین کے مبینہ ملزم "محض پھنسائے” گئے اور بلوائی بھی "جانے پہچانے لوگ”نہیں تھے تو پھر یہ نفرت فروش کون تھے؟؟؟ پولیس اور انتظامیہ پر تو انگلیاں آٹھ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ تحقیقاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سوالات کی کھوج لگائیں تاکہ اصل ملزموں کا "کھرا” مل سکے اور نفرت کا یہ باب ہمیشہ کے لیے "مقفل” ہو جائے۔۔۔۔۔!!!!