کالمزگلزار

نوسرباز پاکستانی برٹش…….گلزار

پھر نئے اور پرانے تاجروں کے گٹھ جوڑ نے ظلم کے نئے بازار گرم کیے۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں تاجر مزدور کو کم سے کم اجرت دیتے اور زیادہ سے زیادہ کام لیتے

انسان اور انسانیت پر جتنا ظلم برطانیہ میں نوکری کی صورت میں ہوتا ہے، اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستان اور دوسرے غریب ممالک سے آئے سٹوڈنٹس اور ورکرز کو قربانی کا بکرا سمجھ کر ذبح کیا جاتا ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں دنیا نے زرعی انقلاب سے صنعتی انقلاب میں قدم رکھنا شروع کیا تو تاجروں کے سینکڑوں سال پرانے گروپوں میں نئے لوگ بھی شامل ہونا شروع ہو گئے۔ پھر نئے اور پرانے تاجروں کے گٹھ جوڑ نے ظلم کے نئے بازار گرم کیے۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں تاجر مزدور کو کم سے کم اجرت دیتے اور زیادہ سے زیادہ کام لیتے۔ کام کے اوقات طلوع صبح سے غروب آفتاب تک ہوتے۔ مزدوروں کے کام کے اوقات پر سب سے پہلی آواز رابرٹ اوون نے اٹھائی، جسے سوشلزم کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے۔ 1817 ء میں اس نے ایک تحریک کا آغاز کیا جسے آٹھ، آٹھ، آٹھ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے خاندان اور آٹھ گھنٹے آرام تھا۔ اس تحریک کو زیادہ پذیرائی تو نہیں ملی لیکن آٹھ گھنٹے کام کی تحریک کا آغاز اسی سے ہوا۔
2023 میں جب میں برطانیہ کے شہر لندن آیا تو اس وقت بزنس مالکان کی جانب سے کم سے کم اجرت کی عدم ادائیگی کا سامنا عروج پر تھا۔ بزنس مالکان خصوصاً پاکستانی اور مسلمان لوگ معمول کے مطابق طالب علم ورکرز کو کم سے کم فی گھنٹہ اجرت سے کہیں کم ادا کر رہے تھے اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ نوکری کی تلاش میں طالب علموں کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے فی گھنٹہ تین پاؤنڈ سے چھے پاؤنڈ تنخواہ دی جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں کم تنخواہ کے علاوہ دیگر شاپس/وئیر ہاؤسز/بزنس پوائنٹس پر کسی بھی قسم کی چھٹی حتیٰ کے بیماری کے لیے بھی چھٹی کرنے پر تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ طالب علموں نے اپنی کالج یونیورسٹی فیس کے علاوہ اپنے اخراجات بھی نکالنے ہوتے ہیں، اس لئے وہ بیچارے آؤ تاؤ دیکھے بغیر کام شروع کر لیتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہاں ختم نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے بھی ہلالی خون کے ہوتے ہیں، جو نوکری کے پیسے تک نہیں دیتے، اور کام کے دوران نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ جب پیسے دینے کا ٹائم آتا ہے تو ورکر کو فارغ کر دیتے ہیں۔ بزنس مالکان کے رویوں سے تنگ آ کر یا نوکری نہ ملنے کی صورت میں کچھ طالب علم سکیورٹی اور فوڈ ڈلیوری کا رخ بھی کرتے ہیں، لیکن سکیورٹی میں صورتحال بھی ویسے ہی ہے، کیونکہ برطانیہ میں زیادہ تر سکیورٹی کمپنیاں پاکستانی اور مسلمان لوگوں کی ہیں۔ جبکہ ان کے برعکس غیر مسلم یا انگریزوں کے ساتھ کام کرنے میں سکون ہے۔ وہ تنخواہ ٹائم پر اور زیادہ دیتے ہیں۔ ورکر کی صحت کا ہر ممکن خیال رکھتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کی قدر کرتے ہیں۔ آٹھ گھنٹے سے زیادہ ٹائم نہیں لیتے۔ بریک اور کھانا ٹائم پر دیتے ہیں۔ ضروری کام یا بیماری کی صورت میں چھٹی کرنے پر پیسے بھی نہیں کاٹتے۔ میں نے لندن میں ایک پاکستانی بزنس مین سے پوچھا تو انہوں نے عجب منطق سنائی، وہ کہتے ہیں ہم کم از کم اجرت والی نوکری دے کر ان لوگوں کو ملازمت کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ سٹوڈنٹس کے علاوہ ورک ویزا رکھنے والے لوگوں سے بھی جانوروں کی طرح چودہ چودہ گھنٹے کی شفٹ کروائی جاتی ہے، حالانکہ ان کے ویزا ڈاکومنٹس پر دن میں آٹھ گھنٹے کام درج ہوتا ہے۔ یہ استحصال دنیا کے مصروف ترین شہر لندن اور پورے یوکے میں طالب علموں/ورکرز کے ساتھ ایک معمول کی بات ہے۔ مختصراً ہر شعبہ ہائے زندگی میں جہاں کہیں بھی پاکستانی یا کسی مسلمان کے پاس کوئی اتھارٹی ہے، وہیں ماتحت کام کرنے والے تنگ اور سسٹم کا بیڑا غرق ہے۔
اب برطانیہ کی نئی لیبر حکومت نے گزشتہ روز روزگار کا بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا ہے اور مزدوروں کے حقوق کے لیے اہم اصلاحات کی فراہمی کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ لیبر پارٹی کی عام انتخابات میں جیت کے بعد کیئر سٹارمر کے وزیراعظم بننے کے تقریباً 100 دن بعد حکومت کی جانب سے روزگار کی قانون سازی میں مجوزہ تبدیلی سامنے آئی ہے۔
بل میں انتخابات سے پہلے کے اہم وعدے شامل ہیں، بشمول زیرو آور معاہدوں پر پابندی، بیمار اور زچگی کی تنخواہ میں بہتری اور ایسے اقدامات جن کا مقصد مالکان کے لیے عملے کو نکالنا مشکل ہے۔ سٹارمر نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت برطانوی عوام کے ساتھ کارکنوں کے حقوق کی سب سے بڑی اپ گریڈیشن کے اپنے وعدے کو پورا کرے گی۔
جولائی کے اوائل میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے لیبر پارٹی نے تنخواہ پر سرکاری اور نجی شعبے کے کارکنوں کی طرف سے کی گئی ہڑتالوں کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔ امید ہے لیبر حکومت بہتر سے بہترین کی طرف گامزن ہو گی۔ یہ کالم لکھنے کا مقصد برطانیہ میں روزگار کے لئے نئے آنے والے بھائیوں کو پاکستانی اور مسلمان بزنس مالکان کا اصل چہرہ اور کالے کرتوتوں سے آگاہ کرنا ہے، تاکہ کسی بھی نوسرباز شخص یا پریشانی سے بچا جا سکے۔ میں انشاءاللّہ اگلے کسی کالم میں اپنی نوکری اور دیگر جملہ مصروفیات کے بارے میں بریفلی لکھوں گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button