(سید عاطف ندیم،پاکستان)پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لئیے متحرک تنظیموں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سلامتی، بعض علاقوں تک رسائی میں مشکلات، آباديوں کی نقل مکانی، غذائیت کی کمی اور غیر صحت مند ماحول اس وائرس کے مکمل خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
پاکستان پولیو پروگرام کے ترجمان ضیاء الرحمان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر 99 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں اور صرف ایک بچہ رہ جائے تو یہ وائرس گندے پانی کے ذریعے دوبارہ ماحول میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ویکسین شدہ بچے بھی وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ضیاء الرحمان نےبات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پولیو کیسز میں مسلسل اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ گزشتہ دہائی، خاص طور پر پچھلے سال، ملک میں سکیورٹی کی صورتحال نے پولیو مہمات کو شدید متاثر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ خطرات والے علاقوں میں یا تو ویکسینیشن مہم شروع نہیں کی جا سکی یا یہ اپنے اہداف تک نہ پہنچ سکی، جس سے مسئلہ مزید سنگین ہو گیا۔ بلوچستان کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے صوبائی کوآرڈینیٹر انعام الحق قریشی نےبتایا کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آپریشنل اور انتظامی چیلنجز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسائل ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو وائرس کو برقرار رہنے اور پھیلنے دیتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سال دو ہزار چوبیس انتخابات کا سال ہے، جس کی وجہ سے حکومت کی توجہ سیاسی منتقلی پر مرکوز ہوگئی ہے۔ اس صورتحال نے پولیو مہم پر منفی اثر ڈالا۔
ذرائع کے مطابق اسٹیک ہولڈرز کے درمیان خوش فہمی کے احساس نے بھی مسائل پیدا کیے، کیونکہ انہوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سرحد پار نقل و حرکت ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ غیر محفوظ سرحد رکھتا ہے، جہاں پولیو وائرس موجود ہے، اور یہ وائرس ان علاقوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ کچی آبادیوں میں حفظان صحت کے بارے میں آگاہی کی کمی پولیو کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔ ان علاقوں میں بچے اکثر گندے نالوں کے قریب کھیلتے ہیں اور ہاتھ دھوئے بغیر کھانے پینے کی عادت رکھتے ہیں، جس سے وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انسداد پولیو کے قطرے نہ پلائے جانے کی وجہ سے بچوں کا مدافعتی نظام کمزور رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سب سے بڑا چیلنج خاص طور پر جنوبی علاقوں میں، بعض علاقوں تک رسائی نہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے پچاس فیصد کیسز صرف تحصیل درازنده سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اس سال پولیو کے اٹھارہ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے نو کیسز ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی درازنده تحصیل سے سامنے آئے۔درازنده میں خاص حالات کے باعث پولیو مہم نہیں چلائی جا سکی، جس کی وجہ سے یہ علاقہ زیادہ خطرے کا شکار ہے۔
پاکستان انسداد پولیو پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں 54 کیسز، 2016 میں 20، 2017 میں 8، 2018 میں 12، جبکہ 2019 میں 147 کیسز رپورٹ ہوئے، جو ایک دہائی میں سب سے زیادہ تھے۔ 2020 میں 84 اور 2021 میں صرف 1 کیس رپورٹ ہوا، تاہم 2022 میں 20 کیسز اور 2023 میں 6 کیسز ریکارڈ ہوئے۔ 2024ء تک ملک بھر میں پولیو کے کیسز تیزی سے بڑھ کر 63 تک پہنچ گئے۔ بلوچستان میں 26 کیسز، کے پی میں 18 اور سندھ میں 17 کیسز رپورٹ ہوئے۔
پولیو پروگرام کے ترجمان ضیاء الرحمان کے مطابق پاکستان میں پولیو کے مقامی وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اس وائرس کا آخری کیس نومبر دو ہزار تئیس میں کلسٹر وائی بی تھری سی سے رپورٹ ہوا تھا۔ تاہم افغانستان سے منسلک ایک اور وائرس، خصوصاً کلسٹر وائی بی تھری اے، پاکستان میں پھیل رہا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔
پولیو کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے کہا کہ تین سال قبل ملک میں پولیو وائرس کی پندرہ اقسام گردش کر رہی تھیں۔ آج صرف ایک قسم فعال ہے، جبکہ باقی چودہ اقسام کو کامیابی سے ختم کر دیا گیا ہے۔