پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اتوار کو ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق ایک بل پر پارلیمنٹ سے منظوری کے باوجود کئی مہینوں کی تاخیر کے بعد دستخط کر دیے۔
سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) بل 2024 اس سال اکتوبر میں پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا تھا، لیکن صدر زرداری کی جانب سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے موجودہ طریقہ کار میں ردوبدل کرنے سے پہلے بین الاقوامی ذمہ داریوں پر غور کرنے کے لیے یہ بل التوا میں پڑ گیا۔
اہم نکتہ یہ تھا کہ نئے بل میں مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹر کرنے کے موجودہ طریقہ کار میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اداروں کا وزارت صنعت سے الحاق کیا جائے۔
صدر زرداری کی طرف سے دستخط شدہ نوٹیفکیشن کے میں لکھا ہے کہ ’وزیراعظم کے مشورے کے مطابق سوسائٹی رجسٹریشن (ترمیمی) بل 2024 کی منظوری ہوئی۔‘ اگرچہ یہ نوٹیفکیشن 27 دسمبر کو جاری کیا گیا تھا، لیکن یہ اتوار 29 دسمبر کو میڈیا کو جاری کیا گیا۔
سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2024 کے تحت ہر دینی مدرسہ، اگر پہلے سے رجسٹرڈ نہیں ہے، تو سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ، 2024 کے آغاز سے چھ ماہ کے اندر اندر خود کو ایکٹ کے تحت رجسٹر کرائے گا۔
نئے قانون کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والا مدرسہ اپنے قیام کے ایک سال کے اندر اندر ایکٹ کے تحت رجسٹر ہو جائے گا۔
بل کی منظوری ان شرائط میں سے ایک تھی جس پر جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی حمایت کی اور اسے پارلیمنٹ میں درکار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں مدد کی۔ اکتوبر میں 26 ویں آئینی ترمیم پاس کروائی۔
جے یو آئی نے حالیہ مہینوں میں بل کے لیے مہم چلائی۔ اس نے اتوار کی پیش رفت کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ ’دینی مدارس کے تحفظ‘ میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
جے یو آئی نے ایک بیان میں کہا کہ ’مذہبی مدارس اسلام کا قلعہ اور پاکستان کے نظریاتی جغرافیہ کے محافظ ہیں۔‘