پاکستاناہم خبریں

پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت

نسٹ کے ان 43 محققین کا تعلق سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت اور انجینئرنگ کے شعبہ سے ہے۔ گذشتہ برس نسٹ کے 31 محققین کو اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا

(رپورٹ وائس آف جرمنی)2024 پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے قابل ذکر رہا۔ پاکستانی جامعات اور محققین کی کئی اہم تحقیقات کو بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔پاکستان میں سائنسی تحقیق دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے بہت سست ہے جس ایک بڑی وجہ فنڈز کی کمی اور تحقیق کے لئے درکار آلات و معیاری تجربہ گاہوں کا فقدان ہے۔ تاہم 2024 اس حوالے سے قابل ذکر رہا۔ اس برس متعدد پاکستانی سائنسدانوں کو ان کی تحقیقات پر بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

وائس آف جرمنی کا اعزازات اور سائنسی پیش رفت کا ایک جائزہ۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے جاری کی گئی ایک رینکنگ میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد کے 43 محققین کو عالمی سطح پر ٹاپ ٹو پرسنٹ سائنسدانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔اس فہرست میں دنیا بھر سے 1 لاکھ سے زائد سائنسدان شامل کیے گئے ہیں۔ یہ درجہ بندی تحقیقات پڑھنے والوں کی تعداد، ہرش انڈیکس اور دیگر تکنیکی عوامل کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔
نسٹ کے ان 43 محققین کا تعلق سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت اور انجینئرنگ کے شعبہ سے ہے۔ گذشتہ برس نسٹ کے 31 محققین کو اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ 2024 میں یہ تعداد بڑھنے سے نسٹ کی عالمی سطح پر سائنسی تحقیق میں پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ اس سے پاکستان میں ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔ ڈاکٹر زبیر کی ٹیم کے سربراہ کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سعودی عرب سے منسلک سائنسدان ڈاکٹر سمیح عبداللہ تھے۔ اس ٹیم نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سیلاب، خشک سالی اور دیگر قدرتی آفات کی درست اور جلد پیشن گوئی کرتا ہے۔ اس ماڈل کو عالمی اور علاقائی دونوں سطح پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے تحقیق اور تجزیئے کے لئے جو ماڈلز استعمال کئے جاتے تھے ان میں بہت زیادہ مقدارمیں ڈیٹا فیڈ کرنا پڑتا تھا۔ جس میں وقت بھی زیادہ لگتا تھا اور کئی دفعہ نتائج غلط آتے تھے۔
آغاخان یونیورسٹی کراچی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم جدید جین ایڈیٹنگ تکنیک کا استعمال کر کے تھیلسیمیا اور سکل سیل انیمیا کے علاج کے لئے کوشاں ہے۔ اس منصوبے کو "ویلکم لیپ فنڈ” نے ایک اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کی مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔اس منصوبے کی سربراہی آغا خان یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر افسر میاں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تھیلسیمیا اور سکل سیل انیمیا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں ان امراض کا علاج خون کی تبدیلی یا اسٹیم سیل تھراپی سے کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خون کی مسلسل تبدیلی ایک تھکا دینے والا عمل ہے جبکہ اسٹیم سیل تھراپی کافی مہنگی ہے اور بعد میں اس کے مضر اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔واضح رہے کہ جین ایڈیٹنگ تکنیک دنیا بھر میں کلینیکلی استعمال کی جارہی ہے اور سٹیم سیل تھراپی کی نسبت سستی اور انتہائی مؤثر ہے۔ پاکستان کی ماحولیاتی پالیسیوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔نوجوان ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا شدہ مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لہذا انھیں پالیسی سازی میں نمائندگی دینا ضروری ہے۔
مارچ 2024 میں پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ بیک وقت سات انسانی اعضاء کو منتقل اور محفوظ کیا گیا۔ یہ کارنامہ بحریہ سفاری ہسپتال راولپنڈی اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی اینڈ لیور کے ڈاکٹروں نے مشترکہ طور پر سر انجام دیا۔بحریہ سفاری ہسپتال میں زیر علاج 36 سالہ مریض عزیر یاسین کا دماغ مردہ قرار دیئے جانے کے بعد وہ وینٹی لیٹر پر زندہ تھے۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی دونوں آنکھیں، لبلبہ، گردے اور جگر کو موت سے پہلے جسم سے الگ کر کے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ان اعضاء کو بعد ازاں دیگر مریض افراد کے جسم میں کامیابی کے ساتھ پیوند کر کے انھیں نئی زندگی دی گئی۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس سے مستقبل میں موت سے قبل اعضاء عطیہ کرنے کے رجحان میں تیزی آئے گی۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے سائنسدانوں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک "تھاٹ ٹو سپیچ” سسٹم تیار کیا ہے۔ یہ سسٹم اے ایل ایس، ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ اور دیگر اعصابی امراض سے متاثرہ ایسے افراد کی مدد کر سکتا ہے جوبات چیت کرنے سے قاصر ہیں۔
نسٹ کے شعبۂ الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ کے سائنسدانوں کا تیار کردہ یہ تھاٹ ٹو ٹیکسٹ سسٹم جدید ڈیپ لرننگ اور مشین لرننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی دماغ کو پڑھتا اور سوچ کو رئیل ٹائم میں تحریر کی صورت میں پیش کرسکتا ہے۔ محققین کے مطابق براہ راست برین کمپیوٹر انٹر فیس ٹیکنالوجی سے معذور افراد کے لئے نئی راہیں ہموار ہوں گی ۔ ایک جانب پاکستانی محققین اور جامعات میں ہونے والی سائنسی تحقیق کو عالمی سطح پر پزیرائی مل رہی ہے تو دوسری طرف وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سائنسی پیش رفت میں عدم دلچسپی ایک سوالیہ نشان ہے۔اس کی واضح مثال چند روز قبل پنجاب یونیورسٹی میں قائم نانو بایوٹک سینٹر کی عجلت میں بندش ہے۔ واضح رہے کہ اس شعبے سے متعلق یہ پاکستا ن کی کسی یونیورسٹی میں قائم واحد سینٹر تھا۔ اس کی بندش سے نانو میڈیسن، بایو فارما سیوٹیکل اور ٹشو انجینئرنگ کی فیلڈز میں ہونے والی مقامی تحقیق کو شدید دھچکا لگا ہے۔یہ مرکز پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا جس نے تھوڑے سے عرصے میں بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل کی تھی۔ اس سینٹر میں 30 سے زائد طلبہ کی تحقیقی تربیت کی جارہی تھی جس میں برطانیہ کی کئی معروف جامعات تکنیکی معاونت بھی فراہم کر رہی تھیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button