
ترکیہ شام میں موجود تمام دہشت گردوں کو کچل سکتا ہے : طیب ایردوآن
صدر ایردوآن نے اس موقع پر دوسرے ملکوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ شام میں اپنے ہاتھ مداخلت کے لیے استعمال نہ کریں
ترکیہ کے صدر طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام سے تمام دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ یہ بات طیب ایردوآن نے بدھ کے روز کہی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں انتباہ کرتے ہوئے کہا ‘ داعش ہو یا کرد دہشت گرد ترکیہ ان سب دہشت گردوں کا شام سے خاتمہ کرنے کی طاقت اور اہلیت رکھتا ہے۔’
صدر ایردوآن نے اس موقع پر دوسرے ملکوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ شام میں اپنے ہاتھ مداخلت کے لیے استعمال نہ کریں۔ واضح رہے پچھلے ماہ جب سے شام سے بشارالاسد کی رجیم کا خاتمہ کرنے کی ‘ھیتہ التحریرالشام’ کی کوششوں کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ترکیہ یہ بار بار کہہ چکا ہے کہ یہ وقت ہے کہ شام سے دہشت گرد کردوں کا بھی خاتمہ کر دیا جائے۔
ترکیہ امریکہ کے حمایت یافتہ کرد گروپ اور اس کی قائم کردہ ‘ سیریئن ڈیمو کریٹک فورسز کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ ترکیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ شام کی نئی انتظامیہ کو لازماً یہ موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ کرد دہشت گردوں کو ختم کر سکے۔ لیکن ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دیتا ہے کہ اگر شام کے شمال میں شام نے خود ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہ کیا تو ترکیہ خود ہی سرحد پار سے آپریشن کر کے کرد دہشت گردوں کو کچل سکتا ہے۔
پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران کہا ‘ داعش کو ختم کرنے کے لیے کردوں کو موجود رکھنے کا بہانہ غیرمنطقی ہے اور مزید نہیں چل سکتا۔’وہ یہ بات کرتے ہوئے کردوں کے بارے میں امریکی مؤقف کا حوالہ دے رہے تھے کہ امریکہ کا یہ مؤقف ہے کہ کرد داعش کے خلاف اہم اتحادی ہے۔ایردوآن نے کہا کہ ‘اگر انہیں واقعی شام اور علاقے میں داعش سے خطرہ ہے تو اس عالمی طاقت کو چاہیے کہ وہ مسئلے کو ترکیہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے کہ اس کا حل ترکیہ ہے دہشت گرد نہیں۔’انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ تمام لوگوں کو چاہیے کہ وہ شام سے اپنے مداخلت کرنے والے ہاتھ نکال لیں۔ہم اپنے شامی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ہم داعش اور کردوں کا سر کچل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جتنی دہشت گرد تنظیمیں ہیں ان کے لیے اب وقت تھوڑا ہے۔
ترکیہ نیٹو کا رکن ملک ہے۔ تاہم شام کے شمال میں موجود کردوں کے بارے میں امریکہ اور ترکیہ کے درمیان بالکل متضاد سوچ اور مؤقف پایا جاتا ہے۔