
بھارت کاجمہوریہ ہونے کا کھوکھلا دعویٰ…..انعام الحسن کاشمیری
جمہوریہ کا مطلب ایسا ملک جس کا سربراہ کوئی بادشاہ، مطلق العنان آمر نہیں بلکہ عوام کا منتخب کردہ نمائند ہو
جمہوریت کی ایک تعریف ہے جس کا مطلب ہے کہ عوامی خواہشات و امنگوںکے مطابق حکومتی امو ر سرانجام دیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا آسان ترین مطلب عوام کی حکومت ہے۔ جمہوریہ کا مطلب ایسا ملک جس کا سربراہ کوئی بادشاہ، مطلق العنان آمر نہیں بلکہ عوام کا منتخب کردہ نمائند ہو۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں کے عوام کو بلاتخصیص مذہب و ملت، رنگ ونسل، علاقائی وصوبائی کے تمام تر حقوق حاصل ہیں۔ اس کا جھوٹا فخر دنیا بھر میں ایک پراپیگنڈہ کی صورت بیان کیاجاتاہے کہ وہ وہاں تمام قومیتوں کے لوگ آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہوئے ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع سے استفادہ کررہے ہیں ۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔
بھارت کا 74واں یوم جمہوریہ آج منایا جارہاہے۔ یوم جمہوریہ کی تاریخ یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے برطانوی راج کے ایکٹ 1935کو منسوخ کرکے آئین ہند کا نفاذ عمل میں لایا۔ دستور ساز اسمبلی نے بھارتی آئین کو 26نومبر1949ءکو اختیار کرنے کی منظوری دی جبکہ اس کا عملی نفاذ 26جنوری 1952ءکو عمل میں لایا گیا۔ اس حوالے سے جہاں بھارت بھر میں مختلف نوعیت کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں وہاں ایک خصوصی تقریب کااہتمام مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی کیاجاتاہے۔ سرینگر کے شیرکشمیرکرکٹ سٹیڈیم میںخصوصی مرکزی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اس کا ایک واضح اور نمایاں مقصد دنیا بھر کو یہ پیغام دینا ہوتاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بالکل پرامن ہیں۔ لوگ تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں بھرپور جوش و خروش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا ایک اندازہ شیرکشمیر سٹیڈیم سرینگر اور مولانا آزادسٹیڈیم جموں میں منعقدہ تقریبات سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ بھارت کے اس کھوکھلے دعوے کی نفی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مقبوضہ وادی کو مکمل طور پر فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کرنے ، ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے، لوگوں کو گھروں میں محصور کردینے، سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے، ذرائع مواصلات کو مکمل طور پرمعطل کردینے جیسے اقدامات خصوصی بروئے کار لائے جانے سے ہوتی ہے۔ اس دن کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ پاکستان ، آزادکشمیر اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے کاروبار مکمل طور پر بند رکھے جاتے ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیاجاتاہے اور بھارت کے خلاف سیاہ پرچم لہراتے ہوئے دنیا کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی جاتی ہے کہ کشمیری عوام نے پون صدی سے جاری بھارت کے غاصبانہ قبضہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ ایک بڑی ریاست جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کے ظالمانہ اقدامات خاص طور پر سرینگر اور جموں میں کرفیو کے نفاذ سے اس کے اپنے دعوے کی نفی ہوجاتی ہے ۔ اگر کشمیری عوام نے اس کے قبضہ کو تسلیم کرلیا ہوتا تو اسے اپنی مرکزی تقریبات کے انعقاد کے لیے ان سٹیڈیم کو فوج کی تحویل میں دیتے ہوئے شہروں میں کرفیو نافذ نہ کرنا پڑتا۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میںبھارت کے یوم جمہوریہ منانے کے لیے سرکاری سطح پر خصوصی انتظامات اور اقدامات کئی روز پیشتر ہی شروع کردیے جاتے ہیں۔ اس کی خصوصی تقریب عموماً شیرکشمیر سٹیڈیم سرینگر میں منعقد کی جاتی ہے تاکہ یہاں سے دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ کشمیر ایک پرامن خطہ ہے۔ یہاں کے باسی مرکزی سرکار کی پالیسیوں سے خوش ہیں اور یہاں آزادی نام کی کوئی تحریک موجود نہیں۔ حالانکہ یہ تقریب بندوقوں کے سائے میں سخت سکیورٹی کے حصار میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کئی روز پہلے ہی سے سخت حفاظتی انتظامات اختیار کرلیے جاتے ہیں۔ ہر آنے جانے والے شخص کی سخت تلاشی لی جاتی ہے ۔ گاڑیوں کی تو خصوصی چھان بین کی جاتی ہے۔ دارالحکومت میں فوج کی اضافی نفری تعینات کی جاتی ہے ۔ ہر چوراہے ، موڑ پر چوکی قائم کرتے ہوئے ایک طرح سے اس شہر کو فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کردیا جاتاہے محض یہ پیغام دینے کے لےے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ ہیں حالانکہ وہ تو اس دن کو ہڑتال اور حکومت کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے گزارتے ہیں ۔ ٹی وی چینلز اور میڈیا کے دیگر ذرائع بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب کی براہ راست کوریج میںمصروف ہوتے ہیں اور وہ یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ سٹیڈیم کے باہر شہر کے گلی کوچوں ، سڑکوں اور نواحی دیہاتوں وغیرہ میں کس نوعیت کا احتجاج بروئے کار لایاجارہاہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے سے قبل تک بھارتی وزیراعظم ان تقریبات سے خصوصی خطاب کیا کرتے تھے جن میں کشمیریوں کے لیے خصوصی مراعات کے اعلانات کیے جاتے تاکہ انھیں دانہ ڈالاجائے اور بھارت کا حامی ہونے کی ترغیب دلائی جائے لیکن غیور کشمیری عوام نے ان مراعات و اعلانات کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔
بھارت کا یوم جمہوریہ منانے کے پیچھے کارفرماعوامل میں دنیا کو بے وقوف بنانا ہے۔ وہ یہ پراپیگنڈہ کرتا چلا آرہاہے کہ مقبوضہ جموں کشمیراس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ کہ کشمیری صرف بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کشمیریوں نے کبھی بھارت کے غاصبانہ وجابرانہ قبضہ کو تسلیم نہیں کیا۔ انھوںنے پون صدی سے تحریک مزاحمت اور تحریک آزادی شروع کررکھی ہے۔بھارت اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ ریاست میں رائے شماری منعقد کرکے دکھادے۔