پاکستاناہم خبریں

صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ سے کیا ہو گا

سوئی سدرن گیس کمپنی نے وزارت کو لکھا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھانے سے صنعتیں قومی گرڈ پر منتقل نہیں ہوں گی بلکہ تھرڈ پارٹی سے سستے داموں گیس خریدیں گی۔

(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستان کی وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے حال ہی میں ملک میں ان صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 14 فی صد اضافہ کیا ہے جو گیس کے ذریعے اپنے استعمال کی بجلی خود پیدا کرتی ہیں۔

صنعت کاروں کا مؤقف ہے کہ ملک میں گیس کی قیمت بڑھنے سے برآمدی ہدف پورا کرنے میں مشکلات مزید بڑھیں گی۔

حکومت اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہتی ہے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے کے باوجود گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کے کم ہوتے ذخائر اور آئی ایم ایف کی ہدایات کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری تھا۔

گیس کی قیمتوں میں کتنا اور کس کے لیےاضافہ ہوا؟

گیس سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کئی صنعتیں کیپٹو پاور پلانٹ لگا چکی ہیں۔ ملک میں ایسی صںعتوں کی تعداد بھگ 1200 بتائی جاتی ہے۔

ان کیپٹو پاور پلانٹس کو مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے تین سو ملین مربع میٹر یومیہ( ایم ایم سی ایف ڈی) سے زائد قدرتی گیس فراہم کی جاتی ہے جب کہ 150 ایم ایم سی ایف ڈی درآمدشدہ آر ایل این جی فراہم کی جاتی ہے۔

حکومت نے ملک میں کیپٹو پاور پلانٹس والی صنعتوں کے لیے گیس کی قیمت تین ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو (میٹرک ملین برٹس تھرمل) سے بڑھاکر3500 روپے ایم ایم بی ٹی یو تک کردی ہے۔ حکومت کو توقع ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اس اضافے سے اسے 55 ارب روپے اضافی ملیں گے۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں یہ اضافہ رواں مالی سال کے دوران گیس سیکٹر سے مطلوبہ آمدن کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گھریلو صارفین کو اضافی بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیرف بڑھانے کی اجازت نہیں دی ہے۔

ملک میں گیس کے ذخائر محدود ہونے کے ساتھ حکومت کئی برسوں سے صنعتوں کے کیپٹو پاور پلانٹس کو مطلوبہ گیس فراہم نہیں کرپاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کرنے والے صنعت کار اور تاجر اکثر حکومت سے نالاں رہتے ہیں۔

اضافہ کیوں کیا گیا؟

حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی منظوری ملنے پر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ کیپٹو پاور پلاںٹ سے بجلی پیدا کرنے والی تمام صنعتوں کو قومی گرڈ سے منسلک کرے گی جہاں اضافی بجلی موجود ہے۔

صنعت کاروں کو اس میں مسئلہ یہ ہے کہ گیس سے چلنے والی کیپٹو پاور پلانٹس سے حاصل شدہ بجلی کی اوسط قیمت قومی گرڈ سے ملنے والی بجلی سے آٹھ روپے فی یونٹ سستی ہے۔ جب کہ قومی ٹرانسمیشن لائنز سے بجلی کی ترسیل کا نظام اب بھی بڑی حد تک ناقابل اعتبار ہے اور صنعتوں کو بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کی صورت میں نقصان کے خدشات رہتے ہیں۔

ملک میں گیس کی کمی کے باعث آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی بتدریج ختم کی جائے اور حکومت کیپٹو پاور پلانٹس استعمال کرنے والی صنعتوں پر یا تو بھاری لیوی عائد کرے یا پھر ایسی صنعتوں کو گیس سپلائی منقطع کی جائے۔

اس اقدام کا مقصد کیپٹو پاور چلانے والی صنعتوں کو قومی گرڈ پر منتقل ہونے کے لیے مجبور کرنا ہے۔

اس اقدام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں بجلی کی کھپت کم ہو رہی ہے جب کہ بجلی کی پیداوار تقریباً دگنی موجود ہے جس کے نتیجے میں گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں۔

توانائی کے ماہرین کے مطابق حکومت کو یہ کام آئی ایم ایف کے اگلے جائزے سے قبل مکمل کرنا ہے تبھی فنڈ سے حاصل قرض پروگرام کی دوسری قسط کا ملے گی۔

سرکاری گیس کمپنیوں کے تحفظات

بعض ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے وعدہ پورا کرنے سے مسائل گھمبیر شکل اختیار کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کر دی جائے گی تو اس سے قدرتی گیس کے ذخائر کی کسی حد بچت تو ہوگی۔ لیکن ساتھ ہی پاکستان کے پاس درآمد شدہ ایل این جی بھی سرپلس ہو جائے گی جس کی وجہ سے گیس سپلائی کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا اور یہ کمپنیاں دیوالیہ بھی ہوسکتی ہیں۔

اس بارے میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام کا وزارتِ توانائی کو لکھا گیا خط بھی سامنے آیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو نیشنل گرڈ پر منتقل کرنے سے تھرڈ پارٹیز یعنی ان پرائیویٹ کمپنیوں کو فائدہ ہوگا جو سستے داموں گیس فروخت کرتی ہیں۔ دوسری جانب صنعتیں سرکاری کمپنیوں سے مہنگی گیس خریدنے کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔

خط میں گیس کمپنی حکام نے مزید کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی اس اسکیم پر عمل درآمد کیا گیا تو یہ ملک کے پیٹرولیم سیکٹر کے لیے تباہ کن ہوگا۔

خط میں اس کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ گیس کی قیمت میں اضافے سے کیپٹو پاور پلانٹس بند نہیں ہوں گے بلکہ وہ تھرڈ پارٹی شپرز سے گیس حاصل کریں گے۔ اس سے سرکاری کمپنیوں کو نقصان جب کہ پرائیویٹ شپرز کو فائدہ ملے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں درآمد کی جانے والی آر ایل این جی (مائع گیس) کے تقریباً 30 فی صدحصے کی کھپت نہیں رہے گی۔ لیکن قطر سے کیے گئے معاہدے کی وجہ سے پاکستان کو یہ اضافی گیس درآمد کرنا پڑے گی۔ اگر پاکستان معاہدے کے مطابق گیس درآمد نہیں کرتا تو اس پربھاری جرمانہ عائد ہوسکتا ہے یا پھر یہ اضافی گیس پاکستان کو کسی نئے گاہک کو کم قیمت میں فروخت کرنا پڑے گی۔

صنعت کاروں کے خدشات

برآمدی صںعتوں کا مؤقف ہے قومی گرڈ سے حاصل شدہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے کیپٹو پاور پلانٹس لگائے گئے تھے۔ تاہم اب ان پلانٹس کے لیے گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے صںعتیں قومی گرڈ پر منتقل ہوتی ہیں تو پیداواری لاگت میں ہونے والے اضافے سے مصنوعات مہنگی ہوں گی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔

کراچی چیمبر آف کامرس (کے سی سی آئی) کے صدر جاوید بلوانی نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عوام اور صنعتوں پر مزید بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی بلند افراط زر اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان ہیں۔

توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی کوششیں؛ کیا پاکستان میں بجلی سستی ہو سکے گی؟

صدرکے سی سی آئی کا کہنا تھا کہ حکومت اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ برآمدی صںعتوں کو عالمی مارکیٹ میں مسابقت میں مدد دینا یقینی بنائے گی۔ لیکن یہ اقدام ان وعدوں اور دعوؤں سے متصادم ہے۔

ان کے بقول ملکی برآمدات میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن قیمتوں میں اضافہ مینوفیکچرنگ اور برآمدات کو بری طرح متاثر کرے گا۔

جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے سے خطیرسرمایہ کاری ضائع ہوگی اور اس شعبے میں مزید غیر یقینی پھیلے گی۔

حکومت کا مؤقف

دوسری جانب وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے گیس کی قیمتیں بڑھانے کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں 70 فی صد اضافے کی وجہ سے یہ ضروری ہوچکا ہے جب کہ اس سے مقامی مارکیٹ میں پیدا شدہ بگاڑ میں کمی آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے کے باوجود غریب آدمی کو اس کے اثرات سے بچایا ساتھ ہی متوسط طبقے اور کمرشل صارفین پر بھی اضافی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو بتدریج بند کرنے کا وعدہ2020 میں آئی ایم ایف سے کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی صنعتوں کی تعداد بہت کم ہے جو گیس سے بجلی بناتی ہیں۔

مصدق ملک کے مطابق اگلے مرحلے میں گرڈ سے ملنے والی بجلی اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت یکساں کرنے کے لیے گیس سے بجلی پیدا کرنے والی صنعتوں پر لیوی بھی عائد کی جائے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button