(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع قلات میں شدت پسندوں کی کارروائی میں 18 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی وزرا کے ہمراہ ہنگامی دورے پر کوئٹہ پہنچے۔
بلوچستان میں جنوری اور فرروی کے پہلے ہفتے میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں شدت آئی ہے۔
صوبے میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات کے بعد وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے پیر کو دیگر وزرا کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کوئٹہ میں امن و امان سے متعلق اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ شر پسندوں کی بزدلانہ کارروائیاں صوبے کی ترقی کو نہیں روک سکتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ "پاکستان میں دہشت گردی کی جو نئی لہر آئی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے سیکیورٹی فورسز جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں۔”
اجلاس سے قبل شہباز شریف نے سی ایم ایچ اسپتال قلات میں زخمیوں کی عیادت کی۔
ہفتے کو جاری ایک بیان میں پاکستان فوج کے ترجمان ادارے ‘ آئی ایس پی آر’ نے بتایا تھا کہ جمعے اور ہفتے کی درمیان شب ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں 18 سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔ اس دوران 23 دہشت گرد بھی مارے گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع آپریشن کی منظوری دی تھی۔
ادھر بلوچستان سے ملحقہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں چار لیویز اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان حکومت نے ٹربیونل آف انکوائری قائم کردی ہے جس کے سربراہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن ہوں گے۔
ٹریبونل آف انکوائری کو سات روز میں رپورٹ پیش کرنے ہدایت کی گئی ہے۔
مسلح افراد نے یکم فروری کو ڈیرہ اسماعیل خان میں لیویز فورس کی گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں چار لیویز اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
حکام نے بتایا ہے کہ لیویز فورس کے اہلکار ایک ٹرک کی چوری کے کیس کے سلسلے میں ڈیرہ اسماعیل خان جارہے تھے۔ ٹرک چند روز قبل ضلع پشین کے علاقے خانوزئی سے چوری ہوا تھا۔ تاہم ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے سے قبل ہی ان کی گاڑی کو بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب انسدادِ دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) نے ڈیرہ اسماعیل خان میں لیویز اہلکاروں پر ہونے والے حملے کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
پاکستان میں جنوری میں دہشت گردی کے واقعات میں 42 فی صد اضافہ ہوا ہے
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف ہو ا ہے کہ رواں سال جنوری میں ملک بھر میں کم از کم دہشت گردی کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں مجموعی طور پر 91 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 35 سیکیورٹی اہلکار ، 20 عام شہری جب کہ 36 دہشت گرد شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ان واقعات میں 117 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں 53 سیکیورٹی فورسز ، 54 عام شہری اور 10 دہشت گرد شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں بھی شدت آئی ہے اور صرف جنوری میں کم از کم 185 عسکریت پسند مختلف کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ 2016 کے بعد پہلا مہینہ ہے کہ جب دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ واقعات فروری کے پہلے ہفتے میں پیش آنے والے واقعات کے علاوہ ہیں۔
بلوچستان میں بدامنی کے تازہ واقعات
رواں سال جنوری میں بلوچستان میں ایک بار پھر امن و امان کی صورتِ حال خراب رہی۔
پانچ جنوری کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں ایک بس پر خودکش بم دھماکے میں چار افراد ہلاک جب کہ 36 سے زائد زخمی ہوگئے۔
نو جنوری کو خضدار کی تحصیل زہری ٹاون میں ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے لیویز تھانہ پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد نادرا آفس، نجی بینک اور موبائل ٹاور کو نذرِ آتش کر دیا۔
یاد رہے کہ 2024 میں بھی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے تربت، قلات، کوئٹہ، دکی، مستونگ، ہرنائی، لسبیلہ، بولان، گوادر، موسیٰ خیل اور دیگر علاقوں میں بھی اسی نوعیت کے حملے کیے تھے۔
محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 2024 کے دوران دہشت گردی کی 200 سے زائد واقعات رونما ہوئے جس میں 207 افراد مارے گئے۔