کالمزناصف اعوان

خواہشوں کا چراغ ضرور روشن ہو گا !…..ناصف اعوان

اب حالت یہ ہے کہ قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جنہیں اتارنا ناممکن نظر آتا ہے بات سوچنے کی ہے کہ اگلی حکومت ملکی امور کیسے چلا پائے گی ؟

حکومت کوئی بھی ہو اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں لوگوں کے جزبات سے خوب کھیلتی ہے قوس قزح ایسے خواب دکھاتی ہے ۔پچھلی حکومت کی خرابیاں بیان کرتی ہے علاوہ ازیں اپنے سیاسی حریفوں کو پریشان کرنے کا بندوبست بھی کرتی ہے ۔یہ سلسلہ پانچ چھے دہائیوں سے جاری ہے اس دوران جو کام عوام کی مشکلات سے متعلق کرنا تھے انہیں بڑی حد تک فراموش کردیا گیا لہذا اب حالت یہ ہے کہ قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جنہیں اتارنا ناممکن نظر آتا ہے بات سوچنے کی ہے کہ اگلی حکومت ملکی امور کیسے چلا پائے گی ؟ لازمی اسے عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا ان کی شرائط کو مانتے ہوئے عوام پر نئے ٹیکس لگانا پڑیں گے اس طرح تو مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ان میں اور اضافہ ہو گا اور ان میں وقت گزرنے کے ساتھ گمبھیرتا بھی آئے گی لگ رہا ہےکہ اس حوالے سے کوئی غور وفکر نہیں ہو رہا ۔ بس حکومت قرضے لے کر معیشت کی گاڑی چلا نے جارہی ہے اور چلا رہی ہے۔ جسے ترقی و خوشحالی کا نام نہیں دیا جا سکتا مگر وہ باآواز بلند کہہ رہی ہے کہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہے یہ کہ وہ بھوک غربت اور مہنگائی ختم کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے لیکن ہمیں ابھی تک ایسے منصوبے نظر نہیں آئے جن سے یہ لگے کہ ملک عزیز اپنے پاؤں پر کھڑا اور قرضوں کی زنجیر سے آزاد ہو سکتا ہے ۔کاروباری اور صنعتی اعتبار سے صورت حال غیر تسلی بخش ہے بہت سے یونٹس بند ہو چکے ہیں نئے تو کیا لگائے جاتے۔آدھر کسانوں کے لئے ایسا کوئی پیکیج نہیں سامنے آیا جس سے ان کی مالی حالت بہتر ہوتی ہو جبکہ ہمارے پڑوس میں کسانوں کو بجلی بیج کھاد ذرعی مشینری اور ذرعی ادویات انتہائی کم قیمت میں مہیا کی جاتے ہیں بجلی تو مفت دی جاتی ہے ان کی اجناس کو ہتھیایا نہیں جاتا انہیں معقول داموں خریدا جاتا ہے۔
بہرحال مجموعی طور سے ہمارے حکمرانوں میں خلوص کی شدید کمی ہے انہوں نے اپنے لئے تو اتنا کچھ اکٹھا کر لیا کہ ان کی آنے والی نسلیں پُر تعیش زندگی بسر کریں گی مگر غریب ‘ غریب ہی رہیں گے رہ رہے ہیں ان کے بچے کچھ بنیادی اور کچھ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہیں گے ۔ان پر ایسا نظام مسلط ہے جو بہت طاقت والا ہے اس نے خود کو ہر طرح سے مضبوط بنانے کے لئے مختلف طریقے اپنا رکھے ہیں عالمی قوتوں کے ساتھ تعلق جوڑ رکھا ہے جو ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اس صورت میں کیسے عوام کے دن پھریں کیسے ان کے ذہنوں سے ایک انجانا خوف ہٹے اور کیسے حقیقی جمہوریت آئے موجودہ جمہوریت حقیقی نہیں وہ تب آئے گی جب اس کے لئے مسلسل جدوجہد کی جائے گی مگر یہ طے ہے کہ اسے ایک روز ضرور آنا ہے کیونکہ عوام میں شعور آچکا ہے وہ پابندیوں اور روایتی طرز حکمرانی کی زنجیر سے جکڑے رہنا نہیں چاہتے پھر اب دنیا کی بھی سوچ تبدیل ہو رہی ہے کہ غربت ختم ہو امن آئے اور وہ سکون کے ساتھ رہ سکے ۔ اسی تناظر میں ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگیں ختم کرکے ان پر اٹھنے والے سرمایے کو اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہوں نے باقاعدہ اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ جنگوں نے امن کو تباہ کیا ہے غربت بھوک بے روزگاری کو جنم دیا ہے کیونکہ بہت سے امریکی فٹ پاتھوں پر آگئے ہیں لہذا وہ امریکا ہی میں نہیں ترقی پزیر اور غریب ممالک میں بھی امن اور خوشحالی لانا چاہتے ہیں جو حقیقی جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں لہذا وطن عزیز میں بھی وہ حقیقی جمہوریت کے حق میں ہیں مگر ہمارے کرتا دھرتا ابھی تک خیالوں میں گُم ہیں ان کی خواہش ہے کہ وہ دس بیس برس تک اقتدار میں رہیں مگر ایسا ہو گا نہیں کیونکہ عوام میں ایک نئی سوچ پیدا ہو چکی ہےجسے بدلنے کے لئے جمہوریت کو لانا پڑے گا وگرنہ یہ اضطراب اسی طرح رہے گا احتجاج بھی ایسے ہی ہو گا ۔اگرچہ حزب اختلاف سے پرخاش رکھنے والے تجزیہ کار و دانشور کہتے ہیں کہ حزب اختلاف (پی ٹی آئی)ختم ہو چکی ہے تھوڑی بہت جو کے پی کے میں موجود ہے وہ بھی ”مُک“ جائے گی مگر سروے بتاتے ہیں کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہوئی ہے
بہر کیف تبدیل ہوتی عالمی سیاست کے ہماری سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوں گے کچھ ہو بھی رہے ہیں لیکن بعض سیاستدان اس حقیقت کو ماننے سے گریزاں ہیں جو محض دل بہلاوہ ہے دلاسا ہے۔ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے لہذا کوئی خوش فہمی میں نہ رہے بیداری کی لہر میں عوامی خواہشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔وہ دور گزر گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے اب تو ٹھوس بنیادوں پر پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی لوگوں کو روزگار دینا ہو گا انہیں تعلیم صحت اور انصاف کی سہولتیں مفت فراہم کرنا ہوں گی ۔یہ کیسی بات ہے کہ دنیا بھر میں یہ تینوں چیزیں ریاست ہی کو مہیا کرنا ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ ”سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے“ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کی جو ذمہ داری ہے اس کو پورا کیا جائے ۔ عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق سوچنا غور کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے یہ جو ”ڈنگ ٹپاؤ“ نوعیت کے پروگرام ہیں ان سے غربت ختم ہو گی نہ بے روزگاری لہذا جو پیسا محض سیاسی قد بڑھانے کے لئے سطحی منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے اس سے اجتناب برتا جائے اسے چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹس کے قیام کے لئے استعمال میں لایا جائے اور اس مقصد کے لئے باقاعدہ ٹیکس اکٹھا کیا جائے خورد برد کی گئی دولت کو قومی خزانے میں لایا جائے تاکہ ہماری معیشت سنبھل سکے اور قرضوں سے جان چھوٹ سکے قرضے لے کر غریبوں کے گھروں میں دال آٹا چاول اور گھی وہ بھی ایک ماہ کے لئے بھجوانے سے ان کے دل نہیں جیتے جا سکتے کیونکہ باقی مہینوں میں انہیں خود ہی کوشش کرنا ہو گی پھر یہاں لاکھوں نہیں کروڑوں غریب ہیں مگر اہل اختیار سمجھ رہے ہیں کہ عوام کو آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے وہ یہ نہیں جانتے کہ دھرتی جاگ چکی ہے جسے سلانا ممکن نہیں کیونکہ ان پر یہ راز آشکار ہو چکا ہے کہ ان کے جاگتے رہنے ہی سے ان کی خواہشوں کا چراغ روشن ہو گا !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button