انٹرٹینمینٹاہم خبریں

ابھی وہی افسر جو اس سارے کام کا بھتہ لے رہے تھے وہ سفید ٹوپیاں پہن کر چھاپے مارنے کے لیے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، پنجاب آرٹسٹس پروڈیوسرز تھیٹر ایسوسی ایشن

’پنجاب بھر کے تھیٹروں میں جو بھی خلاف قانون کام ہوتے ہیں سنسر بورڈ سے پاس ہونا یہ سب کچھ پنجاب آرٹس کونسل کے نیچے ہوتا ہے۔‘

(سید عاطف ندیم-پاکستان): پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکومت تھیٹرز میں جاری مبینہ ’فحاشی اور عریانی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے جبکہ پنجاب کی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری خود اس مہم کو لیڈ کر رہی ہیں۔
وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری کے تھیٹرز کے دورے پر کئی طرح کا رد عمل دیکھنے کو آ رہا ہے۔ پنجاب آرٹسٹس پروڈیوسرز تھیٹر ایسوسی ایشن کے چئیرمین اور تماثیل تھیٹر کے مالک قیصر ثنا نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اگر کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل درآمد کروانا چاہ رہی ہے تو ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمیں صرف اس بات کا مسئلہ ہے کہ تھیٹروں میں فحاشی اور عریانی سرکاری سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’پنجاب بھر کے تھیٹروں میں جو بھی خلاف قانون کام ہوتے ہیں جن میں چار کے بجائے دس دس گانوں کا شامل ہونا اور سکرپٹ کا سنسر بورڈ سے پاس ہونا یہ سب کچھ پنجاب آرٹس کونسل کے نیچے ہوتا ہے۔‘
ابھی وہی افسر جو اس سارے کام کا بھتہ لے رہے تھے وہ سفید ٹوپیاں پہن کر چھاپے مارنے کے لیے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہم تو خود چاہتے ہیں کہ ہمارے تھیٹروں پر یہ فحاشی کا ٹھپہ ختم ہو اس کے لیے حکومت کو اپنے افسروں کا احتساب کرنا ہو گا۔‘
تھیٹر میں کام کرنے والی ایک فنکارہ روحی (ان کی درخواست پر ان کا اصل نام ظاہر نہیں کیا جارہا) نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کو کیا یہ لگتا ہے کہ فنکار جو کچھ بھی پہنتے ہیں وہ ان کی مرضی ہوتی ہے؟ ہم تو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
’تھیٹر والوں کی مرضی کا کام نہیں کریں گے تو کام نہیں ملے گا۔ تو اس میں فنکاروں کو شو کاز نوٹس کس بات کے دئیے جا رہے ہیں؟ یہ زیادتی ہے سب کو پتا ہے کہ یہ سب کچھ ہو کیا رہا ہے۔ لیکن شامت فنکاروں کی آ جاتی ہے۔ میرا خیال ہے اس رویے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔‘
معروف سماجی کارکن اور سینیئر وکیل ربعیہ باجوہ کہتی ہیں کہ ’حکومت ہر چیز کو ڈنڈے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیا کبھی آرٹس یا فنون لطیفہ کو بھی کوئی ڈنڈے سے سیدھا کرتا ہے؟ اور فنکاروں کو ہراساں کرنا تو بالکل ایسے ہے جیسے آپ کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔‘
’ہم نہیں چاہتے کہ تھیٹرز میں فحاشی اور عریانی ہو۔ لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ سینیئر آرٹسٹوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ بیٹھ کر نئے سرے سے قواعد کو جانچا جائے اور ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے کہ حکومت کی براہ راست مداخلت نہ ہو۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر میں تھیٹرز انسانی فن کو پیش کرنے کا ذریعہ ہیں، یہ پولیس سٹیشنز کی نگرانی میں نہیں چلتے۔ اس وقت بات غلط صحیح کی نہیں بلکہ طریقہ کار کی ہے۔‘
تاہم وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ حکومت صرف ان قواعد پر عمل کروا رہی ہے جو پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔
’ہم یہ تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں کہ پنجاب کے تھیٹر اوباشوں کی آماج گاہ ہیں، بلکہ ایسے تھیٹرز ہوں جس میں فیمیلیز بھی بیٹھ کر تفریح کر سکیں۔ ہمارا کام ماحول دوست تھیٹر بنانا ہے۔ اور ہم اس پر اپنا کام جاری رکھیں گے۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button