کالمزناصف اعوان

اقتدار کی بھوک میں عوام کہاں کھڑے ہیں ؟……ناصف اعوان

پی پی پی جو مسلم لیگ نون کے ساتھ مل کر حکومت بنانے جا رہی تھی اب پیچھے ہٹ گئی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھے گی مگر ووٹ اسے دے گی

عام انتخابات ہو چکے تینوں بڑی جماعتیں اپنے اپنے مزاج کے مطابق نشستیں حاصل کر چکیں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں اس کا مطلب ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس پر اعتماد کیا ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کر سکتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت بناتی ہے یا نہیں۔ اس وقت جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں تو کوئی بھی جماعت حکومت سازی کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی ۔پی پی پی جو مسلم لیگ نون کے ساتھ مل کر حکومت بنانے جا رہی تھی اب پیچھے ہٹ گئی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھے گی مگر ووٹ اسے دے گی۔ وہ دوسری طرف بھی جھکاؤ رکھتی ہے
ایسا وہ اس لئے سوچ رہی ہے کہ مسلم لیگ نون ڈیرھ برس کی حکومت میں ڈیلیور نہیں کر سکی اب بھی کچھ نہیں کر پائے گی لہذا اس کے ساتھ ملنا اور وزارتیں لینا گھاٹے کا سودا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک کو مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے جن میں معیشت کا مسٔلہ پہلے نمبر پر ہے اس کی وجہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہیں آنے والے دنوں میں اس کی قسط بھی ادا کرنی ہے جو ایک مشکل ترین مرحلہ ہے مگر ہماری سیاسی جماعتیں اور اہل اختیار گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں انہیں جلد از جلد ایک سمت کی جانب بڑھنے کا فیصلہ کر لینا چاہیے تاکہ عوام کے گمبھیر اور دیرینہ مسائل کے خاتمے کی طرف بڑھا جا سکے۔پچھلے دو برس سے تو ان کی حالت بہت خراب چلی آرہی ہے ان کو یوٹیلٹی بلوں نے اعصابی مریض بنا دیا ہے ۔ جنوری میں ہونے والی بجلی کی قیمت میں اضافے کا اگلے ماہ جو بل آئے گا تو ہوش اڑ جائیں گے أئی ایم ایف کے حکم پرگیس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور نئی بننے والی حکومت کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں کہ جس کے رگڑنے پر ایک جن حاضر ہو گا جو پلک جھپکتے میں سب ٹھیک کر دے گا لہذا ہم گرمیوں میں ایک کہرام برپا ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ ہما ری سیاسی جماعتوں کو اس کا اندازہ نہیں وہ اقتدار کے حصول کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں جبکہ انہیں ملک کی مجموعی صورت حال کے پیش نظر مل بیٹھنا چاہیے۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ ہمیں جو مسائل درپیش ہیں ان کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آجائیں کسی ایک جماعت کے بس میں نہیں کہ وہ ڈھیروں مشکلات پر قابو پا سکے مگر وہ اس طرف نہیں آرہیں اور اقتدار کے لئے ہی تڑپ رہی ہیں۔
ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر کیسے مشکل حالات سے نمٹ سکیں گی۔سچ یہی ہے کہ سوائے انقلابی اقدامات کے شتر بے مہار مہنگائی غربت اور افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں مگر اقتدار کی خواہش رکھنے والی جماعتوں کو اس کی کوئی فکر نہیں اگر کوئی فکر ہے تو کرسی پر بیٹھنے کی جس کے لئے طرح طرح کے جتن کیے جارہے ہیں چالاکیاں دکھائی جا رہی ہیں مگر بات تب بھی نہیں بن رہی۔ پی پی پی جو الٹے قدموں چل رہی ہے کو چاہیے کہ وہ عوام کی خدمت کے لئےآگے آئے وہ ذاتی مفاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے مسلم لیگ نون سے بھر پور تعاون کرے اور اسے حوصلہ دے کہ وہ حکومت بنائے پیچھے نہ ہٹے مگر وہ (پی پی پی )سوچ رہی ہو گی کہ اس کا ساتھ دینے سے مزید سکڑ سمٹ سکتی ہے کیونکہ ڈیرھ برس میں ہونے والی مہنگائی سے غریب عوام ابھی تک کراہ رہے ہیں. ان جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ انتظامی گرفت کو مضبوط بنا کر چند بنیادی مسائل کو ختم کرتیں مگر انہوں نے پی ٹی آئی کو کھڈے لائن لگانے پر ہی توجہ مرکوز رکھی اس کے باوجود وہ عام انتخابات میں کامیاب ہو گئی اب اس کے جیتے ہوئے لوگوں کو بہلایا پھسلایا جا رہا ہے یہ کہاں کی جمہوریت ہے اور کہاں کا اصول ہے وہ جو اچھی اچھی باتیں جلسوں میں کی جا رہی تھیں اب یکسر بھلا دی گئی ہیں ہماری دست بستہ عرض ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست کو ترک کیجئیے اس کے ملک پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ وہ پہلے ہی بد حال ہے اس کی معاشی حالت انتہائی دگر گوں ہے سرکارچلانے کے لئے بڑے پاپڑ پیلے جا رہے ہیں اب تو سیاسی بحران نے اس کی حالت کو مزید خراب کر دیا ہے لہذا فی الفور اس بحران کو ختم کیا جانا چاہیے جس کا جتنا حق بنتا ہے اسے دے دینا چاہیے اور اس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ڈلیور کرے گا ۔ عوام نے اپنے نمائندوں کو اس لئے ووٹ نہیں دئیے کہ کوئی اور بحران پیدا ہو وہ بخوشی حق رائے دہی کے عمل میں شریک ہوئے کہ باضابطہ و باقاعدہ ایک عوامی حکومت قائم ہو سکے اور وہ ان کےلئے خوشحالی و فلاح کا راستہ تلاش کرے ایک ہفتہ ہو چکا ہے انتخابات کو منعقد ہوئے مگر واضح شکل نہیں ابھر پا رہی۔
بہر حال حکومت جو بھی بنے عوام پر ترس کھائے وہ یہ بات بھول جائے کہ اسے کس نے ووٹ دئیے اور کس نے نہیں دئیے انتخابی حالات میں ”وادھا گھاٹا “ ہو جاتا ہے لہذا وہ سب کو ساتھ لے کر چلےکیونکہ چھہتر برس کے بعد عام آدمی کو سکون عزت اور خوشحالی چاہیے لہذا اس کے لئے جو کوئی کچھ کر سکتا ہے وہ ضرور کرے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ جو کوئی لوگوں کے لئے دودھ کی نہریں بہائے گا وہی ان کو بھائے گا یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے باتوں وعدوں سے اپنا گرویدہ بنایا جا سکے اب وہ عمل دیکھنا چاہتے ہیں انہیں نعروں سے متاثر کرنا ممکن نہیں وہ الزامات کی پالیسی سے بھی متاثر نہیں ہو رہے جیسا کہ وہ جانتے ہیں کہ کل تک پی پی پی اور مسلم لیگ نون وغیرہ پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کے لئے ایک ہوگئیں انتخابات کے موقع پر الگ الگ دکھائی دینے لگیں تاکہ عوام کو بیوقوف بنا کر اقتدار تک پہنچا جا سکے جبکہ وہ اندر سے ایک تھیں کہ ان کی قیادتیں انتخابات کے بعد آپس میں گلے مل رہی تھیں مل رہی ہیں۔ ایسی سیاست کاری کا دور اب بیت گیا یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حیرت انگیز طور سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ویسے بھی خان کا بیانیہ لوگوں کی اکثریت کے دلوں میں اتر چکا ہے اسے باہر نکالنے کے لئے عوامی فلاح کے منصوبے شروع کرنا ہوں گے انصاف کا علم بلند کرنا ہوگا سرکاری محکموں کو حقیقی معنوں میں عوام کا خادم بنانا ہو گا اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا وہ کوئی فیصلہ غلط بھی کریں تو اسے ٹھیک بھی وہی کرتے ہیں پھر جب انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے تو اس کا مقصد ان کی رائے معلوم کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس جماعت کو پسند کرتے ہیں کس جماعت کو نہیں پسند کرتے اس کے ذمہ دار بھی وہی ہوتے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ ہم پر امید ہیں کہ سیاسی جماعتیں عوام کو اعتماد میں لے کر باہمی نفرتوں کو دیس نکالا دے دیں گی اور دنیا کو بتا دیں گی کہ ہم ایک ہیں !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button