
(سید عاطف ندیم-پاکستان):
پاکستان میں برسرِاقتدار جماعت مسلم لیگ ن کو سیاسی محاذ پر اب بھی کئی چیلنج درپیش ہیں۔ پارٹی قیادت ان چیلنجز کا حل پنجاب میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر کے نکالنا چاہتی ہے، جس کے لیے مختلف طرح سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پنجاب میں مریم نواز کی حکومت کا مقصد ہی پارٹی کی ساکھ کی بحالی اور مضبوطی ہے۔
مگر وہاں ایک اور بات بھی ہوئی، پارٹی رہنما پرویز رشید جو وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کے دست راست سمجھے جاتے ہیں، نے بتایا کہ ن لیگ پنجاب میں بڑے پیمانے پر رابطہ مہم شروع کرنے جا رہی ہے۔ جس سے کئی طرح کی چہ مگوئیاں جنم لے رہی ہیں۔
ایسے وقت میں بظاہر جب ن لیگ کو کسی خاص اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں تو پھر رابطہ مہم اور نواز شریف کا سیاسی طور پر متحرک ہونے کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ جو مسلم لیگ ن کی ہلچل ہے خاص طور پر نواز شریف صاحب کی وہ بلوچستان کی حد تک تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پنجاب میں ابھی بظاہر ایسا کچھ نہیں نظر آ رہا۔ دور دور تک کوئی الیکشن نہیں، ایک بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ضرور ہے لیکن وہ بھی جس طرح کا قانون لے کر آ رہے ہیں۔ خود اس پر پارٹی کو بڑے تحفظات ہیں۔ اس میں تو اختیار ہی سارے بیوروکریسی کے پاس ہیں۔‘

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نہیں لگتا کہ یہ بلدیاتی انتخابات کروائیں گے بھی۔
’کم از کم اس نئے قانون سے تو نہیں لگتا، تاوقتیکہ کوئی عدالت انہیں حکم دے۔ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صوبائی حکومتیں بلدیاتی حکومتوں کو اپنا حریف سمجھتی ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ پھر آ جا کر یہی بات بچ جاتی ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں ہی ہلچل اس طرح سے کرنے جا رہی ہےکہ نواز شریف خود پنجاب کے معاملات کو براہ راست چلانا شروع کر دیں اور پارٹی کی گرفت کو نئے سرے سے صوبے میں مضبوط کریں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف پنجاب حکومت کے کئی اجلاسوں میں شریف تو ہوئے ہیں، اب ان کے لیے ایوان وزیراعلٰی میں ایک علیحدہ سے دفتر بھی بنا دیا گیا ہے۔ ابھی وہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ بیلاروس کے دورے پر گئے ہیں جہاں سے وہ لندن چیک اپ کے لیے جائیں گے۔ پارٹی اکابرین یہ کہہ رہے ہیں کہ واپسی پر وہ اپنے نئے آفس میں بیٹھیں گے اور ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کریں گے۔
