یورپ

یوکرین۔روس مذاکرات کے آغاز پر دونوں ممالک کا ایک، ایک ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق

ترکیہ کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین جنگ کے تین برس بعد پہلی بار باضابطہ بات چیت کا آغاز ہوا

یوکرین اور روس کے درمیان پہلے براہ راست مذاکراتی عمل کے آغاز ہو گیا، جبکہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ایک، ایک ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کر لیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین جنگ کے تین برس بعد پہلی بار باضابطہ بات چیت کا آغاز ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اہم پیشرفت کے نتیجے میں یوکرین اور روس کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار مذاکرات کے لیے بیٹھے۔
دونوں حریف ممالک کے درمیان بات چیت کے آغاز میں مصافحہ نہیں کیا گیا، جبکہ یوکرینی وفد میں شامل آدھے سے زیادہ افراد نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں۔
مذاکراتی ہال کو یوکرین، ترکیہ اور روسی جھنڈوں سے سجایا گیا تھا، اس موقع پر وزیر خارجہ ترکیہ ہاکان فیدان نے دونوں ممالک کے وفود کو بتایا کہ یہاں سے آگے دو راستے ہیں، ایک راستہ امن کی طرف جاتا ہے اور دوسرا مزید ہلاکتوں اور تباہی کی طرف جاتا ہے۔
بات چیت کا عمل تقریباً دو گھنٹے جاری رہا، تاہم جلد ہی اختلافات سامنے آئے، یوکرین کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ کریمیلن نے ’نئے اور ناقابل قبول مطالبات‘ کیے ہیں، اس میں جنگ بندی کے بدلے میں کیئو کا اپنے ہی علاقے کے بڑے حصوں سے اپنی فوجوں کو ہٹانے پر اصرار کرنا بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنگ بندی کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی، تاہم دونوں ممالک نے ایک، ایک ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کر لیا۔
یوکرینی نائب وزیر خارجہ سرہی کیسلیٹس نے کہا کہ یہ ایک بہت مشکل دن کا بہت اچھا خاتمہ تھا اور ایک ہزار یوکرینی خاندانوں کے لیے یہ بہترین خبر ہے۔
وفد کی قیادت کرنے والے یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف کا کہنا تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ جلد ہو جائے گا، ہمیں اس تبادلے کی تاریخ معلوم ہے، لیکن ابھی اعلان نہیں کر رہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگلا قدم میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی اپنے ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ملاقات ہونی چاہیے۔
اس درخواست کو روسی وفد کے سربراہ اور صدارتی معاون ولادیمیر میڈنسکی کے مطابق نوٹ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روسی وفد مذاکرات سے مطمئن ہے اور رابطے جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم یوکرین اور اس کے متعدد اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ روس، جنگ بندی کے لیے عالمی دباؤ سے توجہ ہٹانے اور یورپی پابندیوں کے 18ویں دور کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button