مشرق وسطیٰ

شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے

قنبت نے بتایا، ''میں بیان نہیں کر سکتا کہ میں کتنا خوش اور شکر گزار ہوں۔‘‘

شامی ڈاکٹر جو جرمنی میں کام کر رہے تھے، اب وہ اپنے وطن واپس جانے لگے اور وہاں تباہ حال نظام صحت کی تعمیر نو میں مدد کر رہے ہیں۔ جرمن ہسپتالوں کو خدشہ ہے کہ ایسے شامی ڈاکٹر شاید واپس نہیں آئیں گے۔

لیکن حال ہی میں جرمنی سے آنے والے شامی ڈاکٹروں نے قنبت کو اپنے انتہائی ضرورت مند مریضوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔

قنبت نے بتایا، ”میں بیان نہیں کر سکتا کہ میں کتنا خوش اور شکر گزار ہوں۔‘‘

انہوں نے اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہ بہت سے شامی جنگ کے دوران اپنے ملک سے رخصت ہو گئے تھے، کہا، ’’اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کے آنے اور ہماری مدد کرنے کا بہت انتظار کیا۔ لیکن وہ ہمیں بھولے بھی نہیں۔ وہ ہماری مدد کے لیے واپس آئے ہیں۔‘‘

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جنگ کے دوران کتنے شامی ڈاکٹروں نے ملک چھوڑا تھا۔ تاہم ورلڈ بینک کے مطابق ان عوامی مظاہروں سے ایک سال قبل جو خانہ جنگی کا باعث بنے، سن 2010 میں 30,000 کے قریب ڈاکٹروں نے شامی آبادی کی خدمت کی تھی۔

اقوام متحدہ نے اس دوران 2020 میں پہلی بار جو ڈیٹا اکٹھا کیا تھا، اس کے مطابق ملک میں 16,000 سے بھی کم ڈاکٹر رہ گئے تھے اور بہت سی نرسیں، فارماسسٹ اور ڈینٹسٹ اور دیگر طبی کارکن ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔

ان میں سے بہت سے ڈاکٹروں نے جرمنی میں پناہ لے لی تھی اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 6,000 شامی ڈاکٹر جرمنی کے مختلف ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں۔ تاہم یہ صرف وہی ڈاکٹر ہیں، جن کے پاس شامی پاسپورٹ ہیں۔ اصل میں جرمنی میں 10,000 سے زیادہ شامی ڈاکٹر ہو سکتے ہیں، کیونکہ اب بہت سے ایسے لوگوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہیں، اس لیے انہیں غیر ملکی عملے کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔

مصطفیٰ فہم
سینیئر ڈاکٹر مصطفیٰ فہم نے دمشق میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ میں کافی پرجوش محسوس کر رہا ہوں۔ ہر شامی کے ذہن میں ایک خوف تھا، جو اسد کے ساتھ جڑا ہوا تھا، جو اب ختم ہو چکا ہےتصویر: Omar Albam/DW

شام میں پہلا طبی مشن

گزشتہ برس دسمبر کے اوائل میں شامی آمر بشار الاسد کی معزولی کے بعد جرمنی میں  مقیم شامی ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے شامی جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن (ایس جی ایم اے) کی بنیاد رکھی۔ جرمنی کے شہر کریفیلڈ کے ہیلیوس ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینیئر فزیشن نور حضوری نے بتایا کہ یہ سب ڈاکٹروں کے ایک چھوٹے سے واٹس ایپ گروپ کے ساتھ شروع ہوا، جو یہ سوچ رہے تھے کہ آخر وہ کس طرح اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نےبات چیت میں کہا کہ پھر واٹس ایپ گروپ ایک فیس بک پیج میں تبدیل ہوا اور پھر جنوری کے وسط میں ایس جی ایم اے کی باضابطہ بنیاد رکھی گئی۔ اب اس کے ارکان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ ’’ہم سب خود بھی واقعی حیران ہوئے کہ یہ سب کچھ کتنی تیزی سے بڑھتا گیا۔‘‘

ایس جی ایم اے کے اراکین نے اپنا پہلا ہوم مشن اپریل کے اوائل سے شروع کیا اور فی الوقت تقریباً 85 شامی ڈاکٹر شام میں تعلیم کے حوالے سے لیکچر دے رہے ہیں۔ وہ شام میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کے نظام کی حالت کا جائزہ لے رہے ہیں اور ملک بھر میں طبی آپریشن کر رہے ہیں۔

ایک سینیئر فزیشن اور جرمن ریاست باویریا کے باڈ نوئے شٹڈ میں رون کلینک میں کام کرنے والے ماہر امراض قلب ایمن سودہ نے حما میں آپریشن تھیٹر سے نکلتے ہوئے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا، ’’شام کے ہسپتالوں میں فی الوقت سب سے بڑا چیلنج طبی آلات کا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’یہ واضح ہے کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران کچھ بھی نیا نہیں کیا گیا۔‘‘

واشنگٹن کے  بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مطابق جنگ سے پہلے تک شام ایک درمیانی آمدنی والا ملک تھا، جس میں صحت کا نسبتاً اچھا نظام تھا۔ لیکن جنگ کے دوران اسد حکومت اور اس کے روسی اتحادی نے صحت کی سہولیات کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا۔ پھر پابندیوں اور بیمار معیشت کی وجہ سے صحت کا نظام مزید بگڑ گیا۔

شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک ہال میں گزشتہ اتوار سے پہلے تک کوئی بھی اس کے بارے میں بات تک نہیں کر رہا تھا۔ تاہم اب اس میں تقریباً 300 لوگ، جن میں متجسس میڈیکل طلبا، مقامی حکام اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل ہیں، ایس جی ایم اے کے وفد کی باتیں سننے کے لیے جمع ہوئے، جو بہت پر امید تھے۔

جرمنی کے شہیر بریمر ہافن کے ایک ہسپتال کے نیفرولوجی کے شعبے کے ایک سینیئر ڈاکٹر مصطفیٰ فہم نے دمشق میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں کافی پرجوش محسوس کر رہا ہوں۔ ہر شامی کے ذہن میں ایک خوف تھا، جو اسد کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اب وہ خوف ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے میں اچھا محسوس کر رہا ہوں اور میں یہاں دمشق میں آ کر خوش ہوں، جہاں میں شام کے صحت عامہ کے نظام کی مدد کرنے کے قابل ہوں۔‘‘

حضوری نے کہا، ’’اس حالیہ مشن کا خیال اس لیے آیا، کیونکہ بہت سے ڈاکٹر شام میں اپنے اہل خانہ سے ملنے جانا چاہتے تھے، جن میں سے کچھ نے تو اپنے اہل خانہ کو 14 برسوں سے نہیں دیکھا تھا۔‘‘

ایک رضا کار ڈآکٹر
شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک ہال میں گزشتہ اتوار سے پہلے تک کوئی بھی اس کے بارے میں بات تک نہیں کر رہا تھا، تاہم اب اس میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو رہے ہیں شامی ڈاکٹروں کو سن رہے 

اس مشن کا آغاز ایک آن لائن سوالنامے سے ہوا اور ایک ہفتے کے اندر ہی 80 سے زیادہ رضاکاروں نے سائن اپ کر لیا۔

حضوری نے تسلیم کیا کہ شام کے کچھ حصوں میں سکیورٹی اب بھی ایک مسئلہ ہے، اس لیے ڈاکٹر ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ’’لیکن حقیقت میں سب سے بڑا چیلنج اشیاء اور سامان کی قیمت تھی۔‘‘

مددگار شراکتیں

حضوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان شامی رضاکاروں نے سفر کی ادائیگی اور طبی آلات کے لیے رقم خود ہی جمع کی۔

وہ کہتے ہیں، ’’بہت سے لوگ اپنے کلینکوں سے عطیات لے کر آئے۔ اسی وقت ہم نے ایک آن لائن فنڈ جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی، جس کے ذریعے ہم ایک ماہ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ یورو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ رقم بھی زیادہ تر جرمنی میں شامی ڈاکٹروں نے مہیا کی جبکہ مقامی شامی این جی اوز نے بھی مادی عطیات میں ہماری مدد کی۔‘‘

اس تنظیم کو ابھی تک جرمن حکومت کی طرف سے کوئی سرکاری مدد نہیں ملی۔ تاہم ایس جی ایم اے کے اراکین نے فروری کے وسط میں جرمن-شامی ہسپتال سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی، جس سے ممکنہ شراکت داری کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔

شام میں ملکی وزارت صحت بھی مددگار رہی ہے، جس نے ایس جی ایم اے کے ڈاکٹروں کو کام کرنے کے اجازت نامے فراہم کیے۔  شام کے نئے وزیر صحت اور نیورو سرجن مصعب العلی بھی پہلے جرمنی میں کام کر چکے ہیں۔

گھر کا احساس کہاں ہوتا ہے شام یا جرمنی میں؟

ایس جی ایم اے کے زیادہ تر طبی رضاکار جرمنی میں اپنی ملازمتوں پر واپس جائیں گے۔ تاہم  جرمنی میں سیریئن ایسوسی ایشن فار ڈاکٹرز اینڈ فارماسسٹس کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ اس کے 76 فیصد اراکین مستقل طور پر اپنے وطن شام واپس جانے پر غور کر رہے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button