
کچھ بہتری کے آثار !……ناصف اعوان
مزدوروں کسانوں کے لئے بھی مختلف پیکیج تیار کیے گئے ہیں اگرچہ کسان بھائی گندم کی مقررہ قیمت سے ناخوش ہیں مگر حکومتی پیکیج سے ان کی ناراضی ختم ہونے کا قوی امکان ہے
کسی بھی حکومت کے مشیر اگر عوام دوست سنجیدہ اور مخلص ہوں تو وہ حکومت کبھی بھی لوگوں کی نفرت کا نشانہ نہیں بنتی کیونکہ مشیران حکومتی فیصلوں جو عوام کے لئے غیر سود مند ہوں پر عمل در آمد نہیں ہونے دیتے یا دوسرے لفظوں میں ان کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار ضرور کرتے ہیں جس کا فائدہ حکومت کے عہدیداروں کو پہنچتا ہے اور ان سے متعلق عوامی سوچ خوشگواریت میں بدل جاتی ہے ۔
اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ صوبہ پنجاب کی حکومت آئے روز لوگوں کی فلاح وبہبود کے جو منصوبے متعارف کروا رہی ہے تو اس سے لگتا ہے کہ اس کے مشیر اسے بہتر مشورے دے رہے ہیں جو عوام کی نفسیات سے خوب واقف ہیں انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ اگر حکومت نے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنی ہیں اور ان کے دل جیتنے ہیں تو انہیں تھوڑی بہت سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی ۔ اس تناظر ہی میں پنجاب حکومت نے درجن بھر منصوبوں کا آغاز کیا ہے تاکہ نوجوانوں کو ہنر مند اور با روزگار بنایا جا سکے اس دوران انہیں وظائف بھی دئیے جائیں گے دئیے جا رہے ہیں ۔مزدوروں کسانوں کے لئے بھی مختلف پیکیج تیار کیے گئے ہیں اگرچہ کسان بھائی گندم کی مقررہ قیمت سے ناخوش ہیں مگر حکومتی پیکیج سے ان کی ناراضی ختم ہونے کا قوی امکان ہے اور جب کھادوں بیجوں ذرعی ادویات اور بجلی کو سستا کر دیا گیا تو پھر یقیناً ان کے سارے شکوے دور ہو جائیں گے۔ سفری سہولتوں کو بھی ممکن بنایا جا رہا ہے ۔سرکاری اداروں کو بھی صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنانے کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ جن محکموں کو نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے ان کو اس بات کا پابند بنایا جا رہا ہے کہ وہ عوام کی دیرینہ شکایات کا ازالہ کریں گے۔ ہسپتالوں کو بھی نجی سیکٹر میں دیا جا رہا ہے مگر ان میں کام کرنے والے ملازمین ڈاکٹرز نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو یہ منظور نہیں مگر وہ اپنا رویہ اور طرز عمل بھی تو دیکھیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد ان سے خفا نظر آتی ہے کیونکہ انہیں نجی کلینکس پر جانے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے یہ کہ ان کو ملنے والی دوائیں بازار میں فروخت کر دی جاتی ہیں لہذا جب سارا انتظام نجی ہاتھوں میں چلا جائے گا تو معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ حاضر اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے مہنگائی پر بھی قابو پایا گیا ہے اگرچہ مہنگائی مافیا بڑا طاقتور ہے مگر ریاست اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے اگر ایسا نہیں تو گزشتہ دنوں ناجائز تجاوزات کے خلاف شروع ہونے والی مہم کے دوران کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ سرکاری مشینری کے کام میں رخنہ ڈال سکے لہذا یہ جو مصنوعی مہنگائی مافیا ہے اس پر ہاتھ ڈالا جانا چاہیے ۔ اگر اکا دکا پکڑ دھکڑ کے واقعات ہو جاتے ہیں تو اندھیر مچانے والوں کو سمجھ آجائے گی کہ اب ہتھ ہولا رکھنا پڑے گا ۔
ملاوٹ کرنے والوں کو بھی پکڑ کر کڑی سے کڑی سزا دلوائی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے براہ راست انسانی جانوں سے کھیلنا شروع کر رکھا ہے ۔اگرچہ متعلقہ محکمے سر گرم عمل ہو بھی چکے ہیں جو جرمانے بھی کر رہے ہیں اور غیر معیاری اشیائے ضروریہ کو تلف بھی کر رہے ہیں مگر ابھی تک ان پر آہنی ہاتھ نہیں ڈالا گیا ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب حکومت کو جو مشیر مشورے دے رہے ہیں وہ عوامی سوچ کے حامل ہیں انہیں لوگوں کی تکالیف کا بے حد احساس ہے لہذا وہ کبھی بھی اذیت پسند ایسے منصوبوں یا پروگراموں کی حمایت نہیں کریں گے ۔یہی وجہ ہے کہ جس منصوبے کو دیکھو اس میں بہتری کا پہلو موجود ہوتا ہے ۔بے روزگاری غربت اور افلاس سے چھٹکارا پانے کی سبیل دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ پنجاب حکومت خواتین کو بھی خصوصی سہولتیں دینے کا پروگرام بنا رہی ہے بلکہ اس کا آغاز بھی ہو چکا ہے اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ انقلابی تبدیلیوں کی شروعات ہو چکی ہے لہذا یہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی تو وطن عزیز ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہو گا ۔ ہم نے اپنے پچھلے کالموں میں یہی عرض کیا تھا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ وہ لوگوں کی سوچ تبدیل ہو تو اسے عوامی مفاد کے فیصلے کرنا ہوں گے جو مسائل انہیں در پیش ہیں ان کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔بہر حال اگر یہ سلسلہ عوامی فلاح جاری رہتا ہے تو عوام کی سوچ بدل بھی سکتی ہے اسی طرح مرکزی حکومت کو بھی کچھ دانا و بینا مشیر میسر ہیں جو اس سے مجموعی طور سے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کروا کر سرخرو ہو نا چاہتے ہیں مگر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب حکومت کی طرح کے منصوبوں کا اجرا کم ہی دیکھنے کو مل رہا ہے
یہاں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ تنقید برائے تنقید کسی بھی لکھنے والے کو زیب نہیں دیتی اسے کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں ہونا چاہیے لہذا ہم بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ جو سچ ہے اسے ہی ملحوظ رکھا جائے اور جو عوام کے مفاد میں ہو اسے ہی موضوع بنایا جائے ۔ہمیں کچھ کچھ دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت مرکزی ہو یا صوبائی لوگوں کو ریلیف دینے میں سنجیدہ ہے اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسے پی ٹی آئی کی اکثریت کو بہر صورت اقلیت میں بدلنا ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو مقبول عام بنانے کے لئے عوام کی خدمت کرتی ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں مگر عوام کو مکمل طور سے اپنا ہم خیال و گرویدہ بنانے کےلئے چھوٹے نہیں بڑے ریلیف دینا ہوں گے اور یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ اب سوشل میڈیا نے جو بیداری کا چراغ روشن کر دیا ہے اس کی لو کو مدھم کرنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں کیونکہ جب حکومت اسی رفتار اور دل جمی سے عوامی بہتری کے منصوبے جاری رکھتی ہے تو ہجوم رہگزر کا رخ مڑ بھی سکتا ہے کیونکہ ہمارے عوام جلد بھول جاتے ہیں اور بدل بھی جاتے ہیں لہذا مرکزی اور صوبائی حکومتیں جب یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ وہ محض کوئی سیاسی کھیل نہیں کھیل رہیں وہ سچے جذبے کے ساتھ عوام کے مصائب ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک بار پھر نئی سیاست کا آغاز ہو گا جسے برقرار رکھنا ہو گا کیونکہ عوام اگر بدل سکتے ہیں تو آئندہ بھی تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے !