
حافظ صاحب قبلہ کا ارشاد……حیدر جاوید سید
تحقیقاتی صحافیوں پر یاد آیا کہ اس ملک اور صحافت کی اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی کہ یہاں دروازوں پر ’’ گوشت پانی کی سپلائی‘‘ دینے والے اور بار ٹینڈر بھی معروف سینئر تجزیہ نگار و صحافی ہیں۔
قبلہ حافظ صاحب نے گزشتہ روز ” شاندار ” تقریر کی لیکن پتہ نہیں کیوں ہمیں مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق جالندھری یاد آتے رہے۔ خیر ہے زندہ آدمی کو ماضی اور مرحوم لوگوں کا یاد آنا کوئی بری بات ہرگز نہیں البتہ ایک سوال ان کے عالیشان خطاب کے بعد سے دل و دماغ پر دستک دے رہا ہے وہ سوال یہ ہے کہ وزارت دفاع کے ماتحت محکموں (ہمارے یہاں انہیں غلط طور پر ادارے لکھا جاتا ہے) کی نظام حکومت میں ساجھے داری دستور (وہ جیسا بھی ہے) میں کہا لکھی ہے؟
ویسے ہمارے یہاں معاملہ ساجھے داری سے کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ آگے کا ہے۔ لگ بھگ 34 برس کی چار فوجی حکومتیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
بات دور نکل جائے گی ہم اصل میں پوچھنا یہ چاہ رہے ہیں کہ حافظ صاحب قبلہ نے خبر ملنے اور تصدیق کرکے آگے بڑھانے کے بارے میں جو قرآنی اصول بیان فرمائے وہ ہم عامیوں اور رعایا کے لئے ہیں یا ان کا اطلاق ’’اُن‘‘ پر بھی ہوتا ہے جنہوں نے باقاعدہ تحقیقاتی صحافی اپنے گملوں میں اُگائے پالے پوسے اور پھر صحافت کی دنیا میں ’’چھوڑ‘‘ دیئے؟
تحقیقاتی صحافیوں پر یاد آیا کہ اس ملک اور صحافت کی اس سے زیادہ بدقسمتی کیا ہوگی کہ یہاں دروازوں پر ’’ گوشت پانی کی سپلائی‘‘ دینے والے اور بار ٹینڈر بھی معروف سینئر تجزیہ نگار و صحافی ہیں۔
ہمارے یہاں سینئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا ویسے تو ’’ہڑ‘‘ آیا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ہم یوٹیوبرز کے سونامی کی بات نہیں کررہے یہ آزاد مخلوق ہے جو جی چاہے کہے جس کے مرضی منہ میں کیمرہ ٹھونس کر گلے پڑے۔
پتہ نہیں کہ حافظ صاحب قبلہ کو کسی نے بتایا ہے کہ نہیں کہ تصدیق کے بغیر پروپیگنڈے کو تحقیقاتی صحافت اور بریکنگ نیوز کے طور پر آگے بڑھانے کا کاروبار یہاں ریاستی محکموں نے شروع کیا تھا۔
مثال کے طور پر ریاست ہی ہمیں بتایا کرتی تھی کہ خان عبدالغفار خان، جی ایم سی، عبدالصمد اچکزئی وغیرہ وغیرہ پاکستان کے وفادار نہیں ہیں۔ ان غیروفادار پاکستانیوں کی فہرست ہر دور میں ’’بڑی‘‘ ہوتی گئی۔ یہ نمونے کی ایک مثال ہے ورنہ مثالیں اور بھی بہت ہیں چلیں ایک اور کا ذکر کرلیتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا ملک میں مارشل لاء لگ گیا ان دنوں ایک ہی سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) ہوا کرتا تھا ریاست نے چند ’’دانوں‘‘ کی خدمات حاصل کیں اور ایجنسیوں کی ٹکسالی میں ظلم کی داستانیں گھڑ کر پی ٹی وی پر نشر کی گئیں ظلم کی ان داستانوں میں جو سنگین الزامات بھٹو اور ان کی حکومت پر لگائے لگوائے گئے وہ کیا بعد میں کسی عدالت میں ثابت بھی ہوئے؟
اس پر دو آراء نہیں کہ کسی بات کو تصدیق کے بغیر آگے بڑھادینا مثبت عمل نہیں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے لیکن پھا غفور نے جو ففتھ جنریشن وار کا لشکر بھرتی کیا اور پھر عوام اور عصری شعور پر کُھلا چھوڑدیا تھا اس لشکر نے صحافت، اخلاقیات، سماجی رویوں وغیرہ وغیرہ کا جو حشر کیا اس کا ذمہ دار کون ہے
اور کب ریاست ہمت سے کام لے کر رعایا سے اس پر معذرت کرے گی کہ ففتھ جنریشن وار والا لشکر ترتیب دینا اور اسے ’’کھلا‘‘ چھوڑ دینا غلط تھا یا یہ کہ اس سے جو نقصان ہوا ریاست اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے گی؟ امید تو نہیں کہ حافظ صاحب قبلہ یا ان کے ماتحت ناراض ہوں گے پھر بھی پیشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ تصدیق کے بعد بات آگے بڑھانے کا قرآنی اصول سب کے لئے ہے اس پر حکومت، سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، ایجنسیوں اور دوسروں کو بھی عمل کرنا چاہیے۔
اب یہاں ایک ضمنی سوال ہے، سکیورٹی سٹیٹ نے اپنے گملوں میں جو تحقیقاتی صحافی اُگائے تھے ان کی تحقیقاتی خبروں سے پھیلا گند کیسے صاف ہوگا اور یہ صفائی جوکہ بھل صفائی سے کم نہیں کرانا کس کی ذمہ داری ہے نیز یہ کہ دروازوں پر ” گوشت اور پانی سپلائی ” کرنے والے یا بار ٹینڈروں کو عظیم صحافی دانشور سینئر تجزیہ نگار بناکر مسلط کرنے والوں کا بھی کبھی احتساب ہوگا یا رعایا کے لئے قرآنی ہدایات ہیں اور ریاست کو سات خون معاف؟
یہ سوال اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہمارے یہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت کو پنپنے دیا جاتا تو پھر زندگی کے سارے شعبوں میں عصری شعور کے ساتھ آگے بڑھنے کی سوچ مستحکم ہوتی۔
جمہوریت کو کس نے پنپنے نہیں دیا؟ امید ہے کہ اس بارے قبلہ حافظ صاحب اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ ورنہ ہم تو یہی کہیں گے کہ ’’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘‘
سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ آج سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، نظام اور حکومت کو جن مسائل بالخصوص مادر پدر آزاد پروپیگنڈے کا سامنا ہے اس کی آبیاری میں ان تینوں کا ہی ہاتھ ہے زیادہ دور نہ جائیں تو اکتوبر 2011ء سے بات شروع ہوسکتی ہے۔
یہ اکتوبر 2011ء سے بات شروع کرنے کی تجویز اس وجہ سے ہے کہ ہماے ہاں لوگوں کا حافظہ بہت کزور ہے ورنہ بات اس دن سے بھی شروع کی جاسکتی ہے جب سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی نظریاتی حلیف ایک مذہبی سیاسی جماعت کے لئے خزانوں کے ’’منہ‘‘ کھول دیئے تھے اور اس جماعت نے پاکستان میں یکم مئی (یوم محنت کشاں) کے موقع پر یوم شوکتِ الاسلام منایا لمبے لمبے جلوس نکالے
یاد پڑتا ہے کہ یوم شوکت الاسلام کا "سب سے لمبا جلوس” راولپنڈی میں لیاقت باغ سے شروع ہوا تھا۔
وقت چونکہ تیزی کےساتھ گزر رہا ہے لوگوں کے پاس غوروفکر اور خوداحتسابی کے لئے چند ساعتیں بھی نہیں ہیں ورنہ بات اس یوم شوکت الاسلام سے بہت پہلے سے بھی شروع کی جاسکتی ہے۔
بات کرنے کا حوصلہ ہو تو ہم اس دن سے بھی بات شروع کرسکتے ہیں جب ایک بڑی خفیہ ایجنسی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے ہنی مون سے بننے والے پروپیگنڈہ سیل نے (یہ 1988ء کی بات ہے) پاکستانی سیاست سے سماجی روایات اور اخلاقیات کو جوتے مار کر باہر نکال دیا تھا۔
اسی پروپیگنڈہ سیل کی چھتر چھایہ میں غلیظ ترین پملفٹ تیار کرواکر تقسیم ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی دو جماعتوں مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے ایسی ایسی زہریلی اور بدبودار تقاریر کیں کہ بیسوائوں نے بھی انگلیاں دانتوں کے نیچے دبالیں۔
یہ وہ کڑوی حقیقتیں ہیں جن سے صرف نظر ممکن نہیں اس لئے کم از کم مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ قرآنی اصولوں پر صرف ہم جیسے عامیوں اور رعایا کو ہی عمل نہیں کرنا بلکہ یہ اصول ہر خاص و عام کے لئے ہیں سبھی کو ان پر عمل کرنا چاہیے۔
بالائی سطور میں جن معاملات کجوں اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور یہ بھی کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ایک وقت ایسا بھی گزرا جب بعض نظریاتی مجاور اخبار ایوان صدر اور وزارت دفاع کے لئے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کو تصدیق کے بغیر بات کو آگے بڑھانے سے گریز کرنا چاہیے لیکن کیا اس ہم سب میں ایجنسیوں کے گملوں میں اُگے وہ تحقیقاتی صحافی بھی شامل ہوں گے جو اب ادھیڑ عمری میں بھی منہ پکا کرکے جھوٹ بولتے ہیں اور صرف ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کرتے ہیں جن کی کردار کشی کے لئے انہیں تخلیق کیا گیا تھا؟
باتیں اور بھی بہت ہیں نصف صدی پر پھیلی قلم مزدوری کے ماہ و سال میں جو دیکھا بھگتا سنا ان سب پر لکھنے لگوں تو بات بہت طویل ہوجائے گی
ہاں ایک بات اور عرض کردوں ہمارے یہاں اپنی لسی کو کوئی بھی کھٹا نہیں کہتا۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ خود کو اپنے آئینی قانونی کردار تک محدود کرلے (یہ ہے مشکل) تو د وسروں کو بھی کینڈے میں رہنا آجائے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل سیاست اور اہل صحافت کو بھی اب اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ ان دونوں میں سے جس جس نے "بغل بچہ ” بن کر جھوٹ کو آگے بڑھایا ان کی وجہ سے سیاست و صحافت کو کیا کیا نقصان نہیں جھیلنا پڑے۔
امید ہے ان تلخ و شیریں باتوں پر غوروفکر کے لئے ہر کس و ناکس چند ساعتیں ضرور نکال لے گا۔