مشرق وسطیٰ

اردن: حزب اختلاف اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا

"نام نہاد اخوان المسلمین کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور (اس کی) کسی بھی سرگرمی کو قانون کی خلاف ورزی تصور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔"

صلاح الدین زین روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ
اردن کی وزارت داخلہ نے بدھ کے روز ملک کے سب سے بڑے اور اہم اپوزیشن گروپ اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے دفاتر بند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثاثے بھی ضبط کر لیے۔
اردن کے وزیر داخلہ مازن الفریا نے کہا کہ یہ فیصلہ تخریب کاری کی ایک سازش کے ردعمل میں کیا گیا ہے، جس میں جماعت کے ایک رہنما کے بیٹے ملوث تھے اور اس پابندی پر فوری عمل ہو گا۔
مازن الفریا نے کہا، "نام نہاد اخوان المسلمین کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے اور (اس کی) کسی بھی سرگرمی کو قانون کی خلاف ورزی تصور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ اس گروپ کے نظریے کو فروغ دینے والے افراد کو بھی قانون کے ذریعے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔
وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا، "یہ ثابت ہو چکا ہے کہ گروپ کے ارکان تاریکی میں کام کرتے ہیں اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جو ملک کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔”
بیان کے مطابق "تحلیل شدہ اخوان المسلمون کے ارکان نے سلامتی اور قومی اتحاد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے اور سکیورٹی اور امن عامہ کو درہم برہم کیا ہے۔”
گروپ کی طرف سے شائع کردہ کوئی بھی مواد بھی اس پابندی کے دائرے میں آتا ہے۔ پابندی کے اعلان کے بعد ہی پولیس نے دارالحکومت عمان میں پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کا محاصرہ کر کے اس کی تلاشی لی۔
اسلامی اقدار اور شرعی امور پر زور دینے والے گروپ اخوان المسلمون پر کئی عرب ممالک میں پابندی عائد ہے، تاہم اردن میں کئی دہائیوں سے یہ گروپ قانونی طور پر کام کرتا رہا ہے۔
اس کا سنی اسلام پسند نظریہ ہے اور شرعی قانون کے تحت خلافت کا قیام اس کا اہم ہدف رہا ہے اور اردن کے بڑے شہری مراکز میں اسے کافی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔
اردن میں اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ ‘اسلامک ایکشن فرنٹ’ (آئی اے ایف) نے ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کی تھیں۔ اس جماعت نے 138 میں سے اکتیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور مہم کے دوران حماس کے خلاف اسرائیلی جنگ پر غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔
اس وقت آئی اے ایف کے رہنما وائل السقا نے کہا تھا، "اردن کے عوام نے ہمیں ووٹ دے کر اپنا اعتماد دیا ہے۔” البتہ انتخابات میں صرف بتیس فیصد عوام نے ہی حصہ لیا تھا۔
اخوان المسلمون کے سربراہ مراد عدیلہ نے کہا کہ آئی اے ایف کی جیت ایک "مقبول ریفرنڈم” کے مترادف ہے، جس سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے لیے گروپ کی حمایت کی توثیق ہوتی ہے۔
اس تحریک کا کہنا ہے کہ اس نے کئی دہائیوں قبل عوامی طور پر تشدد کو ترک کر دیا تھا اور اب وہ پرامن ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے اسلام پسند مقاصد کو آگے بڑھا رہی ہے۔
لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور مصر، جہاں اس کی ابتدا 1920 کی دہائی میں ہوئی تھی، وہاں بھی اسے دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button