
کچھ اِدھر اُدھر کی…..ناصف اعوان
بہرحال حکومتی قدم صورت حال کو بہتر وخوشگوار بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں اس سے وہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے ووٹروں اور سپورٹروں کی ایک حد تک رائے بدلنے میں کامیاب ہو سکتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ پنجاب حکومت انقلابی اقدامات کرنے جارہی ہے تاکہ وہ مشکلات جنہوں نے لوگوں کو مایوس کر دیا تھا انہیں دُور کیا جا سکے ۔ اس طرح صوبہ پنجاب کے عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کی حکومت محض کاغذی منصوبے نہیں بنا رہی بلکہ وہ عملاً ان کی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنے کا آغاز کر رہی ہے ۔ اس نے جو دھی رانی پروگرام شروع کیا ہے اس سے وہ والدین جن کے پاس اپنی بچیوں کو بیاہنے کے لئے پیسے نہیں ان کے چہروں پر رونق دیکھی جا سکتی ہے کیونکہ حکومت پنجاب نے ان کی شادیوں کی ذمہ داری لے لی ہے اور انہیں یہ احساس بالکل نہیں ہونے دیا جا رہا کہ وہ غریب ہیں ان کی بیٹیوں کی شادی دھوم دھام سے کی جا رہی ہے ایک نیاگھر بسانے کے لئے جو لازمی ضرورت کی چیزیں ہونی چاہیں وہ بھی ساتھ دی جا رہی ہیں ۔بعض تقریبات میں محترمہ مریم نواز خود بھی شریک ہوتی ہیں اس طرح لوگوں میں ان کے لئے ایک نرم گوشہ بھی پیدا ہو رہا ہے ۔یہ اچھی بات ہے عوام کو انصاف روزگار اور مسائل کا حل چاہیے لہذا حکومت اپنے تئیں پوری کوشش کر رہی ہے مگر چونکہ مسائل بڑے گمبھیر ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے کچھ وقت لگے گا پھر فنڈز کی بھی کمی ہے وسائل بھی محدود ہیں جو موجود ہیں ان کے اندر رہ کر معاملات دیکھے جا رہے ہیں لہذا عوام کو مضطرب نہیں ہونا چاہیے۔
بہرحال حکومتی قدم صورت حال کو بہتر وخوشگوار بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں اس سے وہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے ووٹروں اور سپورٹروں کی ایک حد تک رائے بدلنے میں کامیاب ہو سکتی ہےکیونکہ اب اس کے بعض کارکنان یہ سوچنے لگے ہیں کہ ان کا لیڈر سیاست کے بجائے انا کے حصار میں نظر آنے لگا ہے جبکہ سیاست کاری میں لچک ہوتی ہے معاملہ فہمی ہوتی ہے مگر وہ ایک ہی بات پر اڑا ہوا ہے ہو سکتا ہے وہ کچھ ماہ کے بعد کامیابی بھی حاصل کر لے مگر (عوام) اس وقت تک وہ بہت سے مصائب میں الجھ چکے ہوں گے لہذا خان کو ایک زیرک سیاستدان کا مظاہرہ کرنا چاہیے بصورت دیگر وہ تنہا رہ جائے گا ۔ اگرچہ خان کو یہ توقع ہوگی کہ ٹرمپ صدر بن گئے تو ان کی رہائی کی راہ ہموار ہو جائے گی ان کے چاہنے والے بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہے ہوں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا ان کےباہر آنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکا کو اپنا ملک عزیز ہے انہوں نے اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہی سیاست کرنی ہے چونکہ انہیں ملکی مفادات کا خیال رکھنا ہے لہذا وہ دیکھیں گے کہ کون ان کے مفادات کے لئے موزوں ہے حکومت کوئی بھی ہو اس سے انہیں کوئی غرض نہیں لہذا وہ شور جو عمران خان کی رہائی کے حوالے سے تھا اب وہ دھیرے دھیرے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ وی لاگرز ان کی رہائی کی تاریخیں دیتے چلے آرہے ہیں مگر خوشخبری سننے کو نہیں مل رہی لہذا کسی بھی ملک سے اس طرح کی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔امریکا تو ویسے بھی بے اعتبارا ہے ماضی میں اس نے جو ہمارے ساتھ برتاؤ کیا ہے اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اسے ہماری کوئی فکر نہیں اگر ہوتی تو ہمارے ہاں اب تک ملوں کارخانوں کا جال بچھ چکا ہوتا کیونکہ ہم اس کے بلاک میں شامل رہے ہیں مگر نہیں اس نے اپنے مطلب کے لئے کبھی آمروں کو تھپکی دی تو کبھی انتخابی حکومتوں کو آشیر باد دی عوام کے لئے مگر اس کی پالیسیاں عوام دوست نہیں تھیں اسی لئے ہمیں قرضوں پر انحصار کرنا پڑا اور آج ہمارا بال بال ان میں جکڑا جا چکا ہے ہاں اگر ان میں بدعنوانی نہیں ہوتی اور ایسے منصوبوں پر ان کا استعمال ہوتا جہاں سے واپسی ممکن ہوتی تو صورت حال مختلف ہوتی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ۔ امریکا کی طرف دیکھنا فضول ہے ۔ ویسے بھی امریکا اب سپر پاور نہیں رہا یہ جو اس کی پالیسیاں سامنے آرہی ہیں ٹامک ٹوئیاں ہیں تاکہ اس کی معیشت مستحکم ہو سکے ؟
چند روز پہلے پاک ٹی ہاؤس میں برازیل سے تشریف لائے ایک دانشور لیبر پارٹی کے رہنما اور کئی ٹریڈ یونینوں کے سربراہ مسٹر patrick کی گفتگو سننے کا موقع ملا ‘ انہوں نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی معیشت کی بحالی کے لئے جو پہلا قدم اٹھایا اس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی کہ چین پر جو ٹیرف لگایا گیا اسے اُس نے ناکام بنا دیا کیونکہ چین سپر پاور بن چکا ہے اس نے ایک ارب لوگوں کو غربت سے نجات دلائی ہے دوسروں کے لئے بھی وہ ایسی ہی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اس کی ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اگلے چند برسوں میں پور ی دنیا پر اپنا معاشی و اقتصادی تسلط جما لے گا ۔اس کے پاس سوچنے اور اس پر عمل درآمد کروانے والے اعلیٰ ترین دماغ موجود ہیں ۔ جہاں کوئی منصوبہ شروع کرنا ہوتا ہے وہ وہاں کے لوگوں کی بھی رائے معلوم کرتے ہیں اور اس کا باضابطہ تجزیہ کرتے ہیں ۔وہ بتا رہے تھے کہ چین ہر ملک کے اندر جمہوریت چاہتا ہے یہ بات بہت سوں کے لئے حیران کن ہو گی مگر سچ یہی ہے ۔ وہ عام آدمی کو خوشحال اور آسودہ حال دیکھنا چاہتا ہے۔ ترقی پزیر ممالک کو وہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی خواہش رکھتا ہے جس کے لئے اُس نے صنعتوں کو فروغ دینے کی پالیسی اختیار کی ہے ۔اس نے نجی سیکٹر کو کھلی چھوٹ نہیں دے رکھی ان پر اس کا کنٹرول ہے یعنی بنیادی پالیسیاں اسی کی ہی ہوتی ہیں بد عنوانی پر بتدریج قابو پانے کی بھی وہ سعی کر رہا ہے۔ امریکا اس کے بر عکس سوچ رکھتا ہے یہ تو ان کی گفتگو میں سے چند باتیں بیان کی گئی ہیں اگلے کسی کالم میں چین کی معیشت بارے انہوں نے اپنی کتاب Solving the Chinese puzzle میں جو کچھ لکھا ہے اسے پیش کیا جائے گا ۔
اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک عزیز کو چین کے ساتھ ہی چلنا چاہیے تاریخی اعتبار سے بھی وہ ہمارا بہترین دوست ثابت ہوا ہے ۔
بات کا آغاز پنجاب حکومت کے عوامی اقدامات سے ہوا تھا جس کی تعریف ہونی چاہیے اس سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو ساتھ لے کر چلے اس وقت تو بہت ضروری ہو گیا ہے کیونکہ جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں اول تو جنگ ہو گی نہیں اگر ہوتی بھی ہے تو چھبیس کروڑ لوگ مل کر اپنا دفاع کریں گے اور مودی کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ اسے دن کو تارے نظر آجائیں گے ۔