
جموں و کشمیر:یوم آزادی کی تقریب سے عمر عبد اللہ کا خطاب، ریاستی درجے کی امید ختم ہونے پر پوچھا ‘ہمارا قصور کیا تھا؟’
عمر عبد اللہ نے جمعہ کو سرینگر میں یوم آزادی کی مرکزی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے قومی پرچم لہرایا۔
سرینگر: وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کے روز یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی کھوتی ہوئی امید پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جذباتی انداز میں پوچھا کہ ‘ہمارا قصور کیا تھا؟’
انہوں نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں گیارہ سال بعد یہ تقریر کر رہا ہوں۔ "ہمارے پاس طاقت تھی، پھر بھی آج ہمارے ہاتھ بندھے ہیں، ہماری ایک خاص حیثیت تھی، ہمارا اپنا جھنڈا تھا، اپنی شناخت تھی، وہ سب ختم ہو گیا، پھر بھی ہم انتظار کر رہے ہیں۔”
عمر نے کہا کہ انہوں نے ایک "مٹتی ہوئی امید” کو برقرار رکھا کہ مرکزی حکومت 15 اگست کو جموں اور کشمیر کے لئے طویل عرصے سے وعدہ شدہ ریاستی درجے کی بحالی کا اعلان کرے گی۔
انہوں نے سوال کیا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو پہلگام میں 22 اپریل کو عام شہریوں پر ہوئے حملے جیسے دہشت گردانہ حملوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے۔
عمر نے کہا کہ "پہلگام حملہ ہماری غلطی نہیں تھی۔ اس کے لیے ہم تکلیف کیوں اٹھائیں؟ کشمیر کے لوگ متاثرین کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑے تھے۔ میرے وزیر اعلیٰ کے دور میں دہشت گردی میں کمی آئی تھی کیونکہ ہم نے اس کے لیے کام کیا تھا۔ ہر سال میں اس پوڈیم کے نمبروں پر فخر کرتا تھا۔ ہم پر دوبارہ اعتماد کریں۔ ہم نے پہلے بھی اس جگہ کا انتظام سنبھالا ہے اور ہم یہ دوبارہ کر سکتے ہیں”۔
انہوں نے مزید کہا: "میں کل سپریم کورٹ سے مایوس ہوا، انہوں نے پہلگام جیسے حالات کا حوالہ دیا۔ پہلگام میں جو کچھ ہوا اس میں ہماری حکومت کی غلطی نہیں تھی۔ آپریشن سندور کے دوران ہماری فضائیہ اور دیگر فورسز نے انہیں سبق سکھایا۔ لیکن ہمیں سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ ہمیں کیوں بھگتنے کی ضرورت ہے جب کہ یہ ہماری غلطی ہم نے نہیں کی؟”
چیف منسٹر نے ریاستی درجے کی بحالی پر زور دینے کے لیے آٹھ ہفتوں کے لیے مشتمل 20 اضلاع پر مشتمل دستخطی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا۔ "اب تک ہم (قومی رہنماؤں سے) ملاقات کر چکے ہیں، خطوط لکھ چکے ہیں، قراردادیں لا چکے ہیں، لیکن سب کچھ ناکام رہا۔ اب سے اگلے آٹھ ہفتوں تک، ہم جموں و کشمیر کے تمام 20 اضلاع کا سفر کریں گے اور ریاست کی بحالی کے لیے دستخطی مہم شروع کریں گے۔”
کشتواڑ میں جمعرات کے سانحے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "جموں میں کشتواڑ میں بادل پھٹنے کی وجہ سے آج بہت سے خاندان سوگوار ہیں۔ ابھی تک 60 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے اور 100 سے زیادہ زخمی ہیں۔ میں کشتواڑ میں اپنی جانیں گنوانے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔”
عمر عبد اللہ نے کشمیر میں آٹھ برسوں میں پہلی بار منتخب وزیر اعلی کے طور پر جمعہ کو قومی پرچم لہرایا اور سرینگر میں یوم آزادی کی مرکزی تقریب کی صدارت کی۔ اس میں پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی سمیت دیگر اعلیٰ حکام اور سیاسی قائدین نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ جون 2018 میں بی جے پی نے اپنی مقامی حلیف جماعت پی ڈی پی کی حمایت واپس لینے کے بعد مخلوط حکومت کے خاتمے سے پہلے 2017 میں یہاں یوم آزادی کی تقریب کی صدارت کرنے والی محبوبہ آخری وزیر اعلیٰ تھیں۔
اس کے بعد اگست سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا کیا گیا۔
گورنر نے سنہ 2018 اور سنہ 2019 میں یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے تقاریب کی صدارت کی۔ وہیں سنہ 2020 سے سنہ 2024 تک بھی یہ اعزاز لیفٹیننٹ گورنر کو حاصل رہا۔
گذشتہ سال نیشنل کانفرنس نے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جس کے بعد عمر عبد اللہ مرکز کے زیر انتظام خطے جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے۔
عمر نے بخشی اسٹیڈیم سرینگر میں ترنگا لہرایا اور دستوں سے سلامی لینے سے پہلے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا، جس میں پولیس، نیم فوجی دستوں، این سی سی کیڈٹس اور اسکول کے بچوں کے دستے شامل تھے۔
وہیں اس بار یوم آزادی کے موقعے پر کلچرل پروگرامز کو کشتواڑ میں بادل پھٹنے کے واقعے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے پیش نظر منسوخ کر دیا گیا۔
