
امن کی فاختہ جنگ نہیں چاہتی……..ناصف اعوان
بھارت اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے مگر نہیں مودی نے صاف انکار کیا ہے
انسانوں سے محبت کرنے والے لوگ کبھی امن کو تہہ و بالا نہیں کرتے !
نریندرا مودی کی سوچ سے ظاہر ہے کہ وہ ایک اذیت پسند اور انسانیت سے بیزار شخص ہے لہذا کبھی وہ اپنے ملک کے اندر اور کبھی اپنے اڑوس پڑوس میں ایسی حرکت کر دیتا ہے جس سے لوگوں کو دکھ پہنچتا ہے ۔
اب اس نے جو ہمارا پانی جزوی طور سے بند کر دیا ہے اس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان نے پہلگام میں مہم جوئی کی ہے جبکہ پاکستان کا اس واقعہ سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ۔ ہماری حکومت اور حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ بھارت اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے مگر نہیں مودی نے صاف انکار کیا ہے وہ پاکستان کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے جو سرا سر غلط اور بے بنیاد ہے لہذا اس پر جنگ کا جنون سوار ہے۔ایل او سی پر اس نے اس کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
مودی کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے وہ کبھی بھی جارحیت نہیں چاہتا وہ ہر چھوٹے بڑے ملک کا احترام کرتا ہے ان سب کے وجود کو تسلیم کرتا ہے وہ کسی ملک کے اندر جاکر کسی قسم کی مہم جوئی نہیں کرتا لہذا مودی کو اپنا شرارتی و شیطانی ذہن صاف رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور جو اس کی سرشت میں ایزا تعصب اور تنگی رچ بس گئی ہے اس سے چھٹکارا پانے کی کوئی سبیل تلاش کرنی چاہیے ۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اصل میں وہ اپنے عوام کو بیوقوف بنا رہا ہے اور انتخابات میں ان کی ہمدردیاں و توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ان کا وزیر اعظم جنونی ہے خوامخواہ صورت حال پیدا کر رہا ہے ۔ مودی کی یہ خوش فہمی ہے کہ وہ حملوں کی سیاست سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لے گا اس کی اس سوچ نے اسے پوری دنیا میں رسوا کر دیا ہے۔ جمہوریت پسند ممالک اور ان کے عوام اس کو پزیرائی دینے کو تیار نہیں ‘ یوں اس کا روپ ایک ڈراؤنے حکمران کے طور سے ابھر کر سامنے آیا ہے لہذا اسے چاہیے کہ وہ اپنے کندھے پر بندوق نہیں امن کی فاختہ کو بٹھائے جو محبت کے گیت گا کر ماحول کو خوشگوار بنائے ۔ تاکہ لوگوں کے چہروں پر چھائی فکر وتشویش کی پرچھائیاں ہٹ سکیں ۔اسے تو اب تک بھارتی معیشت کے پیش نظر غربت میں بڑی حد تک کمی لانا چاہیے تھی ۔بھوک افلاس کو دیس نکالا دے دینا چاہیے تھا یہ تھے کام کرنے کے مگر نہیں ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور یہ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے استحصالی نظام کی ضرورت ہے ۔
ہمارے دوست جاوید خیالوی کا کہنا ہے کہ مودی اگر جنگ چاہتا ہے تو اسے یہ خیال ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم بزدل نہیں کمزور بھی نہیں اور بے بس بھی نہیں ۔ہمارے اندورنی اختلافات و معاملات اپنی جگہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اس وقت پس زنداں سہی مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اپنی سرزمین پر کسی کے ناپاک قدم پڑنے دیں گے ۔ہمیں اپنی دھرتی سے بے حد و حساب پیار ہے لہذا مودی شاید سمجھ رہا ہو گا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اسے جان لینا چاہیے کہ ہم متحد ہیں ایک ہیں۔
جاوید خیالوی بالکل درست کہتا ہے ہمیں اپنی حفاظت کرنا آتی ہے کرکے دکھاتے بھی ہیں لہذا بھارت کو جنگ نہیں امن کی بات کرنی چاہیے اسے اپنے عوام کی حالت زار بارے سوچنا چاہیے کہ وہ بھوکوں مر رہے ہیں اپنے اعضا و اجسام بیچ رہے ہیں ان کو خط غربت کے نیچے سے اوپر لانے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے ۔اسے خطے میں آلہ کاری کے بجائے اس کے مفادات سے متعلق غور کرنا ہوگا اسے کیا پڑی ہے کہ سمندر پار کے امریکا کی خواہش پر عمل کرنے کی‘ اسے چاہیے کہ وہ ہمسائیوں سے دوستی کرے اور اسے مضبوط بنائے ۔ لوگ تو اپنے مسائل کے ہاتھوں گھائل ہیں تعلیم روزگار صحت اور انصاف انہیں مفت فراہم کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ کیا ہے کہ بھارت آئے روز پشت پنگا لینے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جس سے ہر کسی کی توجہ جنگ وجدل کی طرف مبذول ہو جاتی ہے ۔ ہم قطعی لڑائی مار کٹائی نہیں چاہتے ہم انسانوں کو الم و مصائب سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں لہذا بھارت ہی نہیں ہر چھوٹے بڑے ملکوں کو اس مقصد کے لئے کام کرنا چاہیے۔
اب جب بھارت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں اور دو جرنیلوں نے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے تو انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے کچھ دانشور اور پارلیمنٹرین بھی اسے کہہ رہے ہیں کہ زور آزمائی نہیں کرنی چاہیے مگر مودی پاگل پن کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ آئے روز کوئی نہ کوئی بیان داغ رہا ہے ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے اسے کیوں یہ علم نہیں کہ اسے اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا لہذا وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر حقائق کی دنیا میں آئے اور اس کے ذہن میں اگر اس میں معمولی سی بھی اپنے عوام کے لئے کچھ بہتر کرنے کی خواہش ہے تو وہ امریکا ایسے مفاد پرست عیار ملک سے اپنا دامن چھڑا کر علاقائی سیاست کرے اور وہ سوچ بھی تبدیل کرے کہ وہ اس ریجن کا تھانیدار بنے گا ۔اسے ہمیشہ مثبت سوچنا چاہیے اسی میں ہی اس کی اور اس کے ملک کی بقا ہے اور مقبولیت ہے بصورت دیگر اس کی مقبولیت آر ایس ایس تک رہ جائے گی جو ایک انتہا پسند تنظیم ہے اور خون بہانے پر یقین رکھتی ہے اس سے اس کو بہت بڑا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے ہو رہا ہے لہذا وہ جنگی حکمت عملیاں اختیار نہ کرے امن ترقی اور خوشحالی کی راہ پر آئے دونوں جانب کے عوام یہی چاہتے ہیں ستتر برس سے جوایک خاص طبقہ کوسہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں وہ ان سے محروم چلے آرہے ہیں ۔
حرف آخر یہ کہ اگر اس نے حیوانیت دکھائی اور ہمارے اوپر جنگ مسلط کی تو اس پر واضح ہو جائے گا کہ لڑنا اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ بیٹھا ہے کہ عوام پاکستان اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں گے پھر وہ اپنا سیاسی منظر نامہ بھی بدلتا ہوا دیکھےگا جس میں بھارتی عوام ایک تشدد پسند جنونی نرگسیت کے مارے اور آگ و خون کو کھیل کے طور پر اپنانے والے شخص سے نجات پا رہے ہوں گے اور حقیقی جمہوریت نرم ریت پر دھیرے دھیرے ٹہل رہی ہو گی۔یہ محض تصوراتی منظر نہیں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔کیونکہ اب عوام امن چین سےجینا چاہتےہیں ۔