
غزہ میں ’مظالم سے متعلق دوہرے معیارات‘ قابل مذمت، ملائیشیا
''یہ مظالم اس بےپروائی اور ان دوہرے معیارات کا مظہر ہیں، جو فلسطینی عوام کی تکالیف کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔‘‘

محمد حسن نے آسیان کے اپنے ہم منصب وزراء سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”یہ مظالم اس بےپروائی اور ان دوہرے معیارات کا مظہر ہیں، جو فلسطینی عوام کی تکالیف کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔‘‘
محمد حسن کا کہنا تھا، ”یہ صورت حال بین الاقوامی قانون کی حرمت اور احترام کے خاتمے کا براہ راست نتیجہ ہے۔‘‘
پیر کے روز ہونے والی آسیان سمٹ
ملائیشیا کے وزیر خارجہ نے اپنا یہ بیان ایک ایسے وقت پر دیا ہے، جب کل پیر 26 مئی کو کوالا لمپپور میں ہی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کا ایک سربراہی اجلاس بھی ہونے والا ہے اور جنگ سے تباہ حال غزہ پٹی میں اسی مہینے سے اسرائیل اپنی جنگی کارروائیوں بھی تیزی بھی لا چکا ہے۔

غزہ پٹی پر کی جانے والی اسرائیلی بمباری پر بین الاقوامی سطح پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی اسرائیل سے کیے جانے والے یہ مطالبات بھی زور پکڑ چکے ہیں کہ وہ غزہ پٹی میں زیادہ امداد کی ترسیل کی اجازت دے۔
اسرائیل نے دو مارچ سے غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کرتے ہوئے وہاں ہر قسم کی امدا دکی ترسیل کو روک رکھا تھا۔ اس بندش میں حال ہی میں کچھ نرمی کی گئی اور اب تک اسرائیلی حکومت نے غزہ میں صرف محدود حد تک اور بہت ضروری امدا دکی فراہمی کی اجازت دی ہے۔
آسیان کا موقف
آسیان تنظیم کی ایک طے شدہ مدت کے بعد بدلتی رہنے والی قیادت اس وقت ملائیشیا کے پاس ہے۔ تنظیم کے صدر ملک کی حیثیت سے ملائیشیا کے وزیر خارجہ نے اتوار کے روز کوالا لمپور میں کہا، ”فلسطینی عوام پر کیے جانے والے مظالم پر ردعمل ابھی تک بےپروائی اور دوہرے معیارات کا مظہر ہے، جس پر آسیان تنظیم خاموش نہیں رہ سکتی۔‘‘

آسیان کے رکن جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تعداد 10 ہے اور اس تنظیم کے وزرائے خارجہ نے اسی سال فروری میں ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں بھی اپنی طرف سے فلسطینی عوام کے حقوق کی ”دیرینہ حمایت‘‘ کا اعادہ کیا تھا۔
ملائیشیا ایک ایسا مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے، جس نے آج تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے اور اس ملک کے عوام میں بھی فلسطینیوں کے لیے وسیع تر تائید و حمایت پائی جاتی ہے۔
غزہ کی جنگ شروع کیسے ہوئی
اکتوبر 2023ء میں اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہونے والی غزہ کی جو جنگ آج تک جاری ہے، اس دوران ملائیشیا کی طرف سے غزہ پٹی کی فلسطینی آبادی کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اب تک 10 ملین ڈالر سے زائد کی امداد مہیا کی جا چکی ہے۔
اسرائیل میں حماس کے حملے میں 1,218 افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اس کے علاوہ واپس غزہ جاتے ہوئے حماس کے جنگجو 251 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔
ان یرغمالیوں میں سے 57 ابھی تک غزہ پٹی میں حماس کی قید میں ہیں، جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شاید اب تک مارے جا چکے ہیں۔
غزہ پٹی کی حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں وہاں اب تک مجموعی طور پر 53,901 افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں، خواتین اور بچوں کی تھی۔