
پاکستان میں سیلاب سے قبل تیاری کیوں نہیں ؟…۔پیر مشتاق رضوی
عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں سالانہ اب بھی 11 ہزار ہیکٹر کی کٹائی جاری ہے۔ چراگاہوں کا رقبہ 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہوگیا ہے، اور چراگاہوں کی بایو ماس پیداوار 100 فیصد ممکنہ پیداوار سے کم ہو کر 20 فیصد رہ گئی ہے
تادم تحریر موصولہ اطلاعات کے مطابق مون سون کے دوران بارشوں اور سیلاب سے اب تک 819 افراد جاں بحق ،پنجاب میں 182 ،خیبر پختونخوا میں 479 ، سندھ میں57 ، بلوچستان میں 24 ، گلگت بلتستان میں 41 اور آزاد کشمیر میں 28 افراد جاں بحق ہوئے پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار تین دریا وٴں میں سیلاب، 6 لاکھ ایک ہزار سے زائد شہری متاثرہوئےپاکستان میں پچھلے پچھہترسالوں میں 35 چھوٹے بڑے سیلابوں میں لگ بھگ سترہ ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
پنجاب میں سیلاب متاثرین کے لئے گرینڈ ریسکیواینڈ ریلیف آپریشن جاری ہے، دریائے راوی، ستلج اور چناب میں سیلاب سے پنجاب کے کل 769 موضع جات کے 6 لاکھ ایک ہزار 126 شہری متاثرہوئے۔سیلاب متاثرین کی مدد اور دیکھ بھال کے لئے 263 ریلیف کیمپ، 161 میڈیکل کیمپ قائم، خوراک، علاج اور عارضی پناہ گاہیں فراہم کردی گئیں۔سرکاری اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں تین خطرناک سیلابوں سے معیشت کو 70 ارب ڈالرکا نقصان ہوچکا ہے، تحقیق کے مطابق سال 2010، 2022 اوراب 2025 کےسیلابوں نے ملک میں بڑے پیمانے پرتباہی پھیلائی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پورا ملک ایک نہایت سنگین ماحولیاتی موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے خطرات براہ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن رہے ہیں۔1992 سے اب تک جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی ہو چکی ہے، جبکہ چراگاہیں صرف 20 سے 30 فیصد تک اپنی ممکنہ بایو ماس پیدا کر رہی ہیں، جس میں خیبر پختونخوا کا حصہ زیادہ ہے۔ 1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب ثابت کرتے ہیں کہ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو "سیلابی فیکٹریوں” میں تبدیل کر دیا ہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے جنگلات محض درخت نہیں بلکہ ماحول، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔ یہ بارش کے پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز روکتے ہیں، زیر زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں، زرعی زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں اور معیشت کے لیے پانی اور مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں۔جنگلات آب و ہوا کا توازن قائم رکھتے ہیں، درجہ حرارت کم کرتے ہیں اور کاربن کو ذخیرہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہیں۔ یہ دیہی آبادی کے لیے چارہ، ایندھن، پھل، دوائیں اور سیاحت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ ملک کو سیلاب، لینڈ سلائیڈ اور قحط جیسے خطرات سے بھی بچاتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ اگر فوری طور پر بحالی اور مضبوط اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو بڑے ماحولیاتی اور معاشی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ مؤثر پالیسی اور عملدرآمد ملک کے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 1992 میں 3.78 ملین ہیکٹر سے کم ہو کر 2025 میں 3.09 ملین ہیکٹر ہو چکا ہے، یعنی جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ سالانہ جنگلات کی کٹائی 1992 میں تقریباً 40 ہزار ہیکٹر تھی، لیکن حکومت کی مداخلت اور پابندیوں کے باعث کم ہو کر 2025 میں 11 ہزار ہیکٹر سالانہ ہو گئی ہے، لیکن صورت حال اب بھی تشویشناک ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں سالانہ اب بھی 11 ہزار ہیکٹر کی کٹائی جاری ہے۔ چراگاہوں کا رقبہ 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہوگیا ہے، اور چراگاہوں کی بایو ماس پیداوار 100 فیصد ممکنہ پیداوار سے کم ہو کر 20 فیصد رہ گئی ہے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق چترال میں 1992 سے 2009 کے درمیان 3700 ہیکٹر سے زائد جنگلات ختم ہو گئے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ 2030 تک مزید 23 فیصد کمی متوقع ہے۔کالام سوات میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر لکڑی کاٹنے سے دریائے سوات کے کیچمنٹ ایریا کو شدید نقصان پہنچا، جس نے 1992 اور 2010 کے سیلابوں کو مزید تباہ کن بنا دیا۔جنگلات کی کٹائی اب بھی ڈھلوانوں کو کمزور اور اچانک آنے والے سیلاب کے خطرات کو بڑھا رہی ہے۔ یہ تباہی صرف چند اضلاع تک محدود نہیں۔بونیر میں اگست 2025 کے کلاؤڈ برسٹ نے اچانک آنے والے سیلاب کو جنم دیا، جس نے گھروں، کھیتوں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ جنگلات سے محروم پہاڑ بارش کے پانی کو روک نہ سکے۔بٹگرام میں نازک اراضی ڈھانچے اور جنگلات کی کٹائی نے لینڈ سلائیڈز کو جنم دیا، جنہوں نے قراقرم ہائی وے بند کر دی اور شمالی پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔
باجوڑ میں 2025 کے ایک مہلک کلاؤڈ برسٹ سیلاب نے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ سڑکیں اور پل بہا دیے۔مانسہرہ میں بار بار کلاؤڈ برسٹ سے اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈز آئیں، جبکہ گلگت بلتستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے، جس سے یہ خطہ جنگلاتی آگ اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات کے لیے نہایت حساس ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر عادل ظریف، کنوینر، سرحد کنزرویشن نیٹ کا کہنا ہے کہ جنگلات بارش کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں، زیرِ زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں اور ڈھلوانوں کو مستحکم بناتے ہیں۔ جب یہ ختم ہو جائیں تو ننگی پہاڑیاں جنگلوں سے ڈھکے علاقوں کے مقابلے میں 5 سے 8 ڈگری زیادہ گرم ہو جاتی ہیں، جس سے مون سون کی ہوائیں تیزی سے بلند ہو کر اچانک کلاؤڈ برسٹ پیدا کرتی ہیں، بجائے اس کے کہ مسلسل بارش ہو۔ جڑوں کے بغیر مٹی کو سہارا نہیں ملتا اور لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے عام ہو جاتے ہیں، جبکہ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ماحولیاتی تباہی براہ راست انسانوں کو متاثر کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تقریباً ایک تہائی گھرانے مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں، لیکن چراگاہوں کی پیداواریت بے جا چرائی اور بدانتظامی کے باعث صرف 20 سے 30 فیصد رہ گئی ہے۔ جو خاندان پہلے جنگلات سے چارہ اور ایندھن حاصل کرتے تھے، وہ اب مزید غیر پائیدار طریقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف شجرکاری مہمات اس بحران کو حل نہیں کر سکتیں جب تک لکڑی کی مافیا کے خلاف سخت کارروائی اور ملوث اہلکاروں کا احتساب کیا جائے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم پاکستان میاںحمد شہباز شریف کا یہ بیان قابل ذکر ہے وزیراعظم شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سیلاب سے نمٹنے کیلئے قلیل، درمیانے اور طویل المدت پالیسی وضع کرنا ہوگا ہمارے پاس کئی نئے چھوٹے ڈیمز تعمیر کرنے کی صلاحیت موجود ہے، پانی ذخیرہ کرنے کیلئے اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔، پانی کے ذخائرکی تعمیروقت کی ضرورت ہے۔ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ کرناہوگا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ریسکیو اور قدرتی آفات سے نمٹںے والے اداروں کو مزید متحرک ہوناہے۔ متحد ہوکر بڑے فیصلے کرناہوں گے، آنےوالے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے فیصلے کرناہوں گے۔ چھوٹے ڈیموں کی تیاری آج سےہی شروع کرنا ہوگی، پانی کو محفوظ کرنے کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کرکام کرنا ہوگا۔وزیراعظم نے کہا کہ آئندہ سالوں میں سیلاب سے بچنے کیلئے صوبے اپنی تیاری کریں۔ آئندہ سالوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سےنمٹنا ہے، پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثرہورہاہے۔

