پاکستاناہم خبریں

پاکستان کی جانب سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش

10 مئی کی شام، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایکس پر اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے

اسلام آباد / واشنگٹن (نمائندہ خصوصی)حکومت پاکستان نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی باضابطہ سفارش کی ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے صدر ٹرمپ کی ان سفارتی کوششوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جن کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید کشیدگی کے باوجود ایک وسیع جنگ ٹل گئی اور جنوبی ایشیا ایٹمی تصادم سے محفوظ رہا۔
جنوبی ایشیا میں کشیدگی، جنگ، اور "امن کی راہ”
رواں سال 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد خطے میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ بھارت نے حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے نہ صرف سندھ طاس معاہدہ معطل کیا بلکہ جارحانہ بیانات اور اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔
6 مئی کی رات بھارتی فضائیہ کی دراندازی کے جواب میں پاکستانی افواج نے انتہائی سخت اور مؤثر کارروائی کی، جس میں بھارتی فضائیہ کے 5 جنگی طیارے (جن میں 3 رافیل بھی شامل تھے) مار گرائے گئے اور ایک بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سمیت کئی چیک پوسٹس تباہ کر دی گئیں۔
پاکستان کا ’آپریشن بنیان مرصوص‘
صورتحال کی شدت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے 10 مئی کو ’آپریشن بنیان مرصوص‘ (آہنی دیوار) کے نام سے جوابی کارروائی کا آغاز کیا، جس کے دوران بھارتی علاقے ادھم پور، پٹھان کوٹ، آدم پور ایئربیسز، براہموس اسٹوریج سائٹ، ایس-400 دفاعی نظام اور دیگر کلیدی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
صورتحال تیزی سے مکمل جنگ کی طرف جا رہی تھی، لیکن اسی وقت سفارتی فرنٹ پر ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔
صدر ٹرمپ کی ثالثی، جنگ بندی کا اعلان
10 مئی کی شام، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایکس پر اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس اعلان نے نہ صرف دنیا کو حیران کر دیا بلکہ ایک ممکنہ ایٹمی تصادم کو روک کر عالمی امن کی طرف بڑا قدم قرار دیا گیا۔
پاکستان نے اس فیصلے میں صدر ٹرمپ کے کردار کو انتہائی اہم اور "امن دوست قیادت” کی علامت قرار دیا ہے۔ حکومت نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ ٹرمپ کی قائدانہ سفارتکاری نے نہ صرف جنوبی ایشیا کو ممکنہ جنگ سے بچایا بلکہ کشمیر جیسے حساس مسئلے پر بھی سنجیدگی سے توجہ دی۔
"اصل ثالث” کا اعزاز
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت نے اپنے اعلامیے میں کہا:”صدر ٹرمپ نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں سے متوازن اور سنجیدہ سفارتی روابط قائم رکھے، جو نہ صرف کشیدگی میں کمی کا ذریعہ بنے بلکہ ایک وسیع جنگ کو بھی ٹال دیا۔ ہم انہیں جنوبی ایشیا میں اصل ثالث اور امن کا علمبردار تسلیم کرتے ہیں۔”
ٹرمپ کا ردعمل
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا:”مجھے روانڈا، کانگو، سربیا، کوسوو، اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرانے پر نوبل انعام ملنا چاہیے۔”
ان کے اس بیان نے عالمی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ کئی بین الاقوامی مبصرین نے اسے ٹرمپ کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔
علاقائی ردعمل اور سفارتی اثرات
اس پیش رفت کے بعد خطے میں دیگر ممالک کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا۔ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان سے وزیر اعظم شہباز شریف کی 17 مئی کو ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی، جس میں کشیدگی کم کرنے میں ایران کے ’’برادرانہ اور مخلصانہ کردار‘‘ کا اعتراف کیا گیا۔
دوسری جانب، بھارت میں ترکیہ اور آذربائیجان کو پاکستانی مؤقف کی حمایت پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ہزاروں بھارتی شہریوں نے ان ممالک کے سیاحتی دورے منسوخ کر دیے، جسے خطے میں جاری سفارتی کشمکش کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنا نہ صرف ایک بڑا سفارتی پیغام ہے بلکہ جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی جیوپولیٹیکل حقیقتوں کا اعتراف بھی ہے۔ جہاں ماضی میں امریکا کا کردار اکثر متنازعہ سمجھا جاتا تھا، وہیں اب ٹرمپ کی قیادت میں امریکا نے ایک بار پھر ثالثی کی حیثیت سے خود کو منوایا ہے۔
پاکستان کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دے سکتی ہے۔ اگرچہ فیصلہ نوبل کمیٹی نے کرنا ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ خطے میں جنگ کی دہلیز پر کھڑے ممالک کو پرامن مستقبل کی طرف گامزن کرنے میں ٹرمپ کی سفارتکاری ایک تاریخی موڑ ثابت ہوئی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button