
وائس آف جرمنی خصوصی رپورٹ:
پاکستان میں آٹو انڈسٹری کے لیے ایک نیا اور اہم باب رقم ہونے جا رہا ہے، کیونکہ اکتوبر 2025 سے مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں پر 57 بین الاقوامی حفاظتی تقاضے (سیفٹی سٹینڈرڈز) لاگو کیے جا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ حکومت پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے، مگر ماہرین اسے ایک طویل المدتی عوامی مفاد کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں جو نہ صرف ڈرائیورز، مسافروں، اور پیدل چلنے والوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے اہم ہے بلکہ پاکستانی آٹو انڈسٹری کو عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنانے کا سنگ میل بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اب تک کی صورت حال: ناکافی اور سطحی تقاضے
اب تک پاکستان میں گاڑیوں کے لیے جو حفاظتی تقاضے لاگو تھے، وہ صرف سطحی نوعیت کے تھے، جیسے:
سیٹ بیلٹس
انڈیکیٹرز
بریک لائٹس
ایئر بیگز اور دیگر جدید فیچرز پر قوانین کے باوجود عمل درآمد نہ ہونے کے برابر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کے حادثات اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ گاڑیاں عالمی حفاظتی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
57 بین الاقوامی معیارات: کن کن پہلوؤں کا احاطہ؟
وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق ان نئے حفاظتی سٹینڈرڈز میں گاڑی کے ہر پہلو کو شامل کیا گیا ہے، مثلاً:
1. گاڑی کی ساخت اور حادثے میں ردِعمل:
فرنٹ، سائیڈ، اور رئیر کریش ٹیسٹ
چھت کا وزن برداشت کرنے کی صلاحیت
ایندھن کے نظام کی حفاظت
2. مسافروں کی حفاظت:
معیاری سیٹ بیلٹس اور ایئر بیگز
بچوں کے لیے حفاظتی نشستوں کے لیے لازمی ISO Fix پوائنٹس
حفاظتی شیشے، ڈیش بورڈ اور اندرونی سطحوں کا محفوظ ڈیزائن
3. پیدل چلنے والوں کا تحفظ:
گاڑی کے اگلے حصے (بمپر، بونٹ) کا ایسا ڈیزائن جو تصادم کی صورت میں کم سے کم چوٹ پہنچائے
بونٹ کی اونچائی اور زاویہ مخصوص معیار کے مطابق
4. ڈرائیور اسسٹ سسٹمز:
الیکٹرانک سٹیبلٹی کنٹرول (ESC)
اینٹی لاک بریکنگ سسٹم (ABS)
بریک اسسٹ فیچر
ٹائر پریشر مانیٹرنگ سسٹم (TPMS)
5. آگ سے تحفظ اور الیکٹرک سیفٹی:
آگ نہ پکڑنے والے اندرونی مواد
الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریز کے لیے سیفٹی ٹیسٹ
شارٹ سرکٹ یا بیٹری دھماکے سے بچاؤ کے اقدامات
6. لیبارٹری اور مینوفیکچرنگ معیارات:
ISO 17025 جیسے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق لیبارٹری ٹیسٹنگ
پوری مینوفیکچرنگ چین کی عالمی سطح پر جانچ پڑتال
مقامی انڈسٹری پر اثرات: مشکلات اور مواقع
پاکستان میں اس وقت صرف 17 بنیادی سیفٹی تقاضے لاگو ہیں، اس لیے 57 سٹینڈرڈز کا نفاذ مقامی آٹو مینوفیکچررز کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
ممکنہ اثرات:
گاڑیوں کی قیمتوں میں عارضی اضافہ
فیکٹریوں کو اپنا انفراسٹرکچر اپ گریڈ کرنا ہوگا
ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا
مقامی گاڑیوں کی معیار میں بہتری آئے گی
تاہم ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی صرف وقتی دباؤ نہیں، بلکہ طویل مدتی فوائد رکھتی ہے:
صارفین کو محفوظ گاڑیاں میسر آئیں گی
پاکستان کی آٹو انڈسٹری ایکسپورٹ کے قابل ہوگی
ملکی مارکیٹ میں عالمی کمپنیوں کا اعتماد بڑھے گا
پاکستان کو ریجنل آٹو حب بنانے کی سمت قدم
ماہرین کی رائے: نیا دور، نئی ذمہ داریاں
سیفٹی ماہر احسان قریشی کے مطابق:
“دنیا میں اب یہ تصور مکمل طور پر بدل چکا ہے کہ صرف چلنے والی گاڑی کافی ہے۔ محفوظ گاڑی بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ بچوں کے لیے حفاظتی نشست کی غیر موجودگی دنیا میں بہت بڑا تحفظاتی خلاء سمجھا جاتا ہے۔”
آٹو انڈسٹری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ:
“یہ صرف انتظامی حکم نہیں بلکہ آٹو انڈسٹری کے لیے ایک نیا دور ہے۔ اگر حکومت نے ان ضوابط پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرایا، تو پاکستان آٹو سیکٹر عالمی مسابقت میں شامل ہو سکتا ہے۔”
عالمی تقاضے، مقامی ردعمل
پاکستان کی حکومت نے یہ اقدام آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کیا ہے، لیکن اس کے ثمرات پاکستانی عوام اور صارفین کو براہ راست حاصل ہوں گے۔
تاہم، چیلنج یہ ہے کہ یہ قوانین صرف کاغذی نہ رہیں۔ ماضی میں قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچ سکا۔
مستقبل کی سمت: ’موٹر وہیکل انڈسٹری ڈیولپمنٹ ایکٹ 2025‘
حکومت ان تمام ضوابط کو "موٹر وہیکل انڈسٹری ڈیولپمنٹ ایکٹ 2025” کے تحت نافذ کرے گی، جو آٹو انڈسٹری کے لیے ایک ریگولیٹری چھتری کے طور پر کام کرے گا۔
اگر اس پر مؤثر عمل درآمد کیا گیا، تو پاکستان کی گاڑیاں صرف عوامی توقعات پر ہی نہیں بلکہ عالمی تجارتی معیار پر بھی پوری اتریں گی۔
جان ہے تو جہان ہے
پاکستان میں ان حفاظتی تقاضوں کا نفاذ صرف قانونی مجبوری نہیں بلکہ انسانی جانوں کے تحفظ کا معاملہ ہے۔
ماہرین، صارفین، اور پالیسی ساز سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اقدام دیر سے سہی مگر درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔