
خصوصی رپورٹ نمائندہ وائس آف جرمنی-پاکستان
پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کی ایک مقامی عدالت میں منگل کے روز ایک غیر معمولی نوعیت کی فوجداری درخواست پر سماعت ہوئی جس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے مبینہ حکم دینے پر مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے ابتدائی دلائل کے بعد دائرہ اختیار کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے مزید دلائل کے لیے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
درخواست کا پس منظر
یہ درخواست ایڈووکیٹ جمشید علی خواجہ کی جانب سے دائر کی گئی، جو خود کو انٹرنیشنل لائرز فورم کے سینکڑوں اراکین کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے وکیل جعفر عباس جعفری نے عدالت کو بتایا کہ 21 اور 22 جون کو امریکی بی ٹو بمبار طیاروں کی ایرانی جوہری تنصیبات پر مبینہ بمباری سے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر خطرات میں اضافہ ہوا، بلکہ پاکستانی شہریوں، بالخصوص وکلاء، کو شدید ذہنی اذیت اور خوف کا سامنا کرنا پڑا۔
ذہنی صدمہ، خوف اور دائرہ اختیار کی دلیل
درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ان حملوں کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے، جس کے باعث نفسیاتی دباؤ، عوامی اضطراب اور سیکورٹی خدشات نے جنم لیا۔ انہوں نے زور دیا کہ چونکہ ان حملوں کے اثرات پاکستان کی حدود میں محسوس ہوئے، لہٰذا پاکستان کی عدالتیں اس معاملے میں کارروائی کی مجاز ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا:
"جہاں جرم کے اثرات ظاہر ہوں، وہاں مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔ یہ خوف صرف عوام تک محدود نہیں رہا بلکہ ساحلی علاقوں میں امریکی بحری سرگرمیوں کے سبب صورت حال مزید کشیدہ ہوئی۔”
عدالت کا ردِ عمل: دائرہ اختیار کا مسئلہ
تاہم، عدالت نے فوری طور پر دائرہ اختیار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا:
"یہ واقعہ پاکستان کی سرزمین پر پیش نہیں آیا۔ اگر دنیا کے کسی اور کونے میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو کیا پاکستان کی عدالتیں ہر ایسی درخواست کو سننے کی پابند ہوں گی؟”
عدالت نے درخواست گزار کو مزید دلائل دینے کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
قانونی ماہرین کی رائے: ’درخواست بے بنیاد ہے‘
معاملے پر قانونی ماہرین کی رائے منقسم نہیں بلکہ واضح ہے۔ سینئر وکیل شوکت حیات نے اس درخواست کو مکمل طور پر ناقابلِ قبول قرار دیتSS ہوئے کہا:
"ڈونلڈ ٹرمپ ایک خودمختار ریاست کے صدر رہ چکے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کو براہِ راست کوئی جسمانی یا مالی نقصان نہیں پہنچا۔ اگر کل کوئی امریکی شہری پاکستان کے وزیرِ اعظم کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کرے، تو کیا وہ بھی قابلِ سماعت ہوگا؟”
وکیل علی احمد پال نے بھی ایسی نوعیت کی درخواست کو محض توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا:
"اس طرح کی شکایات کا فورم بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) ہو سکتا ہے، نہ کہ پاکستانی عدالتیں، جن کے پاس ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔”
درخواست گزار کا موقف: ’یہ درخواست قابلِ سماعت ہے‘
اس کے برعکس، درخواست گزار کے وکیل نے میڈیا سے گفتگو میں اصرار کیا کہ:
"یہ حملہ صرف ایران پر نہیں بلکہ پوری خطے کی سلامتی پر حملہ تھا۔ اس سے لاکھوں لوگ خوفزدہ ہوئے جن میں ہمارے مؤکل بھی شامل ہیں۔ اس لیے یہ درخواست پاکستانی عدالت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔”
درخواست کی نوعیت اور مطالبات
24 جون کو دائر کی گئی اس درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ:
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف باقاعدہ فوجداری مقدمہ (FIR) درج کیا جائے؛
قانونی اور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ متاثرہ افراد قانونی عمل کو آگے بڑھا سکیں؛
پاکستان میں نفسیاتی صدمے اور خوف کی بنیاد پر مقدمہ قابلِ سماعت تسلیم کیا جائے۔
تجزیہ: مقدمے کی نوعیت غیر معمولی، فیصلے کا دائرہ کار محدود
قانونی ماہرین اور تجزیہ کار اس درخواست کو غیر سنجیدہ یا تکنیکی بنیادوں پر کمزور قرار دے رہے ہیں۔ موجودہ قانونی ڈھانچے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستانی عدالتوں کو ایسے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ ہونے کے برابر ہے۔
البتہ یہ واقعہ ایک علامتی قانونی کارروائی بن سکتا ہے جو عالمی سطح پر امریکی جارحیت کے خلاف عوامی ردعمل کو اجاگر کرنے کی کوشش سمجھی جا سکتی ہے۔