پاکستان

لیاری کراچی میں پانچ منزلہ عمارت گر گئی، کم از کم 8 افراد جاں بحق، درجنوں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ

"انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوتاہی یا غفلت ثابت ہوئی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔"وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ

کراچی ( نمائندہ خصوصی): صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں جمعے کی صبح ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت اچانک زمین بوس ہو گئی، جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم آٹھ افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ متعدد افراد زخمی ہیں اور درجنوں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

واقعہ علی الصبح پیش آیا جب بیشتر رہائشی اپنے گھروں میں موجود تھے۔ پانچ منزلہ عمارت مکمل طور پر منہدم ہو گئی، جس نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ علاقہ مکینوں نے فوری طور پر ریسکیو ٹیموں کو اطلاع دی، جنہوں نے موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کر دیں۔ تاہم، موبائل سگنلز کی بندش اور راستوں کی تنگی کے باعث ریسکیو آپریشن میں شدید مشکلات پیش آئیں۔


ہلاک شدگان اور زخمیوں کی تفصیلات

ریسکیو 1122 کے مطابق، جاں بحق ہونے والوں میں:

  • 21 سالہ پرانتک ولد ہارسی

  • 55 سالہ حور بی بی زوجہ کشور

  • 35 سالہ وسیم ولد بابو

  • 28 سالہ پریم ولد نامعلوم

  • فاطمہ زوجہ بابو (زخمی حالت میں اسپتال منتقل کی گئیں، جہاں دم توڑ گئیں)

  • تین نامعلوم افراد: جن میں ایک تقریباً 25 سالہ خاتون، 30 سالہ مرد اور 7 سالہ بچہ شامل ہیں۔

تمام لاشوں کو سول اسپتال کراچی منتقل کیا گیا ہے، جہاں شناخت اور قانونی کارروائی کا عمل جاری ہے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق، بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔


ریسکیو آپریشن جاری، درجنوں افراد ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ

ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ چھ خاندان اس عمارت میں رہائش پذیر تھے۔ عمارت کے ہر فلور پر تین پورشن تھے اور حادثے کے وقت بیشتر رہائشی گھروں میں موجود تھے۔ اب تک 8 افراد کو زندہ یا مردہ حالت میں ملبے سے نکالا جا چکا ہے، جبکہ تقریباً 24 سے 25 افراد تاحال ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

ابتدائی طور پر مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔ ہیوی مشینری کی تاخیر سے آمد اور راستوں کی بندش کے باعث ریسکیو عمل میں رکاوٹیں آئیں۔

ریسکیو ٹیموں نے گرنے والی عمارت سے متصل دو دیگر 7 منزلہ عمارتوں کو حفاظتی طور پر خالی کرا لیا ہے، اور علاقے میں بجلی اور گیس کی لائنیں منقطع کر دی گئی ہیں تاکہ مزید کسی ممکنہ نقصان سے بچا جا سکے۔


مقامی و حکومتی ردعمل

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

"اب تک سات افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ریسکیو آپریشن جاری ہے اور ملبے تلے موجود تمام افراد کو نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔”

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں سے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا:

"انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوتاہی یا غفلت ثابت ہوئی تو سخت کارروائی کی جائے گی۔”


بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی غفلت؟

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے مطابق، متاثرہ عمارت 30 سال پرانی اور خستہ حال تھی، اور اسے مخدوش قرار دیا جا چکا تھا۔ تاہم، علاقہ مکینوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کسی قسم کا کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے انہیں عمارت خالی کرنے کی ہدایت دی۔

ایس بی سی اے کے ایک سینیئر افسر نے اعتراف کیا ہے کہ شہر بھر میں اس وقت 578 مخدوش عمارتیں موجود ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ تعداد ضلع جنوبی میں واقع ہے۔

ابتدائی طور پر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے متعلقہ افسران کو معطل کر دیا گیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جو تین روز میں رپورٹ پیش کرے گی۔


تحقیقات کا دائرہ وسیع

ڈپٹی کمشنر کراچی کے مطابق، تحقیقات کا دائرہ اس نکتے تک بڑھا دیا گیا ہے کہ اگر عمارت مخدوش تھی تو رہائشیوں کو بروقت اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟ اور قانونی کارروائی کیوں مؤخر ہوئی؟


متاثرہ خاندانوں کا مطالبہ: انصاف چاہیے

متاثرہ خاندانوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی شفاف اور غیرجانبدار تحقیقات کی جائیں، اور ذمہ دار افسران کو فوری سزا دی جائے۔

حادثے میں بیٹے سے محروم ہونے والے زبیر احمد نے کہا:

"ہمارا پورا خاندان چوتھی منزل پر مقیم تھا۔ ایک خاتون کو تشویشناک حالت میں نکالا گیا ہے، جبکہ میرا بیٹا اس حادثے میں جان سے چلا گیا۔ ہمیں کبھی کسی نوٹس یا وارننگ کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔”


نتیجہ: ایک اور المیہ، ایک اور سوالیہ نشان

کراچی جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر میں مخدوش عمارتیں وقت بم بن چکی ہیں، جو کسی بھی لمحے انسانی جانوں کو نگل سکتی ہیں۔ لیاری کا یہ واقعہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ انتظامی ناکامی، قانونی غفلت اور ریاستی بےحسی کی علامت بن چکا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سانحہ بھی ماضی کے حادثات کی طرح فائلوں میں دفن ہو جائے گا یا واقعی متاثرہ خاندانوں کو انصاف ملے گا اور مستقبل میں ایسی اموات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button