کالمزناصف اعوان

گھنگھور گھٹائیں دل دہلا رہی ہیں !….ناصف اعوان

دریا بھی بپھرے ہوئے ہیں ان میں اتنا پانی بہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا سُنا

اس بار موسم برسات رِم جِھم والا نہیں ڈُبکیوں والا آیا ہے ۔شہر ہوں یا دیہات پانی کے گھیرے میں ہیں ۔ خستہ حال مکانات گر رہے ہیں دوسروں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے انسانی جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں ۔ ایسے علاقے جہاں بارش کے پانی کے جمع ہونے کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا تھا اب وہ ڈوب چکے ہیں ۔
دریا بھی بپھرے ہوئے ہیں ان میں اتنا پانی بہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا سُنا ۔ یوں مجموعی طور سے صورت حال بڑی خراب ہے متعلقہ محکموں کے علاوہ پاک فوج کے جوان بھی پانی میں گھرے لوگوں کو نہ صرف بحفاظت نکال رہے ہیں انہیں خوراک و ادویات بھی فراہم کر رہے ہیں ۔
طوفانی بارشوں نے فصلوں کو بھی بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ قبل از وقت بوئی جانے والی دھان کی فصل ”رُڑ پُڑ“ گئی ہے ۔ کسان بے چارے تو پہلے ہی پریشان تھے اب مزید ہو گئے ہیں ۔ شہروں کی حالت یہ ہے کہ نشیبی علاقوں میں جب بھی بارش ہوتی ہے چار چار پانچ پانچ فٹ پانی کھڑا ہو جاتا ہے جس سے قیمتی سامان برباد ہو جاتا ہےاور روزمرہ کی مصروفیات معطل ہو کر رہ جاتی ہیں اس صورت حال کے پیش نظر لوگ حکومت کو خوب کڑوی کسیلی سنا رہے ہیں جو کہ جائز نہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بارشیں غیر معمولی ہیں طوفانی ہیں نکاسی آب کا نظام کتنا ہی جدید اور بہتر ہو اتنے پانی کو نہیں سنبھال سکتا ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بارش کے پانی کو قابو میں نہیں کیا جاتا لہذا وہ آہستہ آہستہ ہی دریاؤں کی طرف بہتا ہے اس لئےحقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تنقید کی جانی چاہیے مگر ہمارے ہاں تنقید کا کوئی پیمانہ نہیں‘ بس جس حکومت سے تعلق ہے یا وہ پسند ہے اس کی ہر ایک غلطی و کوتاہی کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے اور جس سے کوئی ناطہ نہیں اس کو رگڑا دیا جاتا ہے۔ ایسا طرز عمل مناسب نہیں ۔بہت سے لکھنے اور بولنے والے حضرات بھی اپنی اپنی پسند و ناپسند کو ہی پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا ”فرض“ پورا کرتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ سیاسی وابستگی رکھتے ہیں .
بہرحال جہاں تک ممکن ہو سکےحکومت کو ان بے بس لوگوں کو حوصلہ و ریلیف دینا چاہیے ۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ قومی خزانے کا منہ کھول دے۔ اس نے عوامی فلاحی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر کیے گئے ہیں ان کی واپسی بھی کرنی ہے ۔حکمرانوں کو یہ توفیق تو ہے نہیں کہ وہ اپنی گرہ سے عوام کے نقصانات کو پورا کریں لہذا حالات بڑے تکلیف دہ ہیں ایک طرف قدرتی آفات نے تباہی مچادی ہے تو دوسری جانب مسائل خوفناک شکل اختیار کیے ہوئے ہیں اس صورت میں حکومت کو بڑی مشکل پیش آرہی ہے لہذا موجودہ حالات میں اسے بیرونی امداد و تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ معاملات مزید نہ الجھنے پائیں ۔ یہاں ہم پنجاب حکومت کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ایک طرف سیلابی اور دوسری جانب عام مسائل کم کرنے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے وہ چاہتی ہے کہ پریشان حال لوگوں کو چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے راحت وسکون بہم پہنچائے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ٹیکسوں میں اضافہ ہو گا اور تیل کی قیمتیں بڑھیں گی تو لازمی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا تو پھر ایسے میں انہیں مسرت و خوشی کہاں سے آئے گی لہذا یہ جو کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں اندھا دھند بڑھ رہی ہیں ان پر قابو پانا بہت ضروری ہے اور یہ قیمتیں دکاندار لوگ از خود بڑھا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے حکومت پنجاب کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کہ اس نے مصنوعی مہنگائی کو روکنے کے لئے ایک نئی فورس ” پیرا “ متعارف کروائی ہے یہ فورس مہنگائی کے علاوہ ذخیرہ اندوزوں اور غیر قانونی تجاوزات کی بھی خبر لے گی ۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ ریڑھی بان سے لے کر دکاندار تک معمولی منافع پر اکتفا نہیں کرتے اور گاہکوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اپنی من مرضی کرتے ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں مگر اب پوچھا جائے گا۔ اس پہلو کو بھی سامنے رکھناچاہیے کہ ”پیرا“ کےجوان روایتی پولیس کی طرح اپنے تھیلے بھرنے میں نہ لگ جائیں اور منتھلیاں نہ لینے لگیں اس کے لئے میڈیا کی رپورٹس کو اہمیت دی جائے کہ وہ جہاں کہیں خلاف قانون کوئی چیز دیکھے تو اس کی نشان دہی کرے اور حکام اس پر قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔
اس طرح سی سی ڈی کا محکمہ وجود میں لایا گیا ہے جو جرائم کو کنٹرول کرے گا کر رہا ہے ۔ بڑے بڑے بدمعاش‘ غنڈے اور کّن ٹُٹےپکڑے جا چکے ہیں کچھ مقابلے میں پار بھی ہو گئے ہیں بہت سے ”پُٹھے ہاتھ“ کانوں کو ہاتھ بھی لگا رہے ہیں مگر چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں لہذا ان کو معافی سوچ سمجھ کر دی جائے پھر کوئی بے گناہ پریشان نہ ہونے پائے ۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی دوبارہ آتے ہیں بارشی اور سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کی طرف‘ اس حوالے سے مکرر عرض ہے کہ جن خاندانوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور آئندہ پڑنے کا مکان ہے کیونکہ بارشیں تھمی نہیں ابھی تو ساون کا آغاز ہوا ہے لہذا بادل گرجیں گے برسیں گے دریاؤں کے بند بھی ٹوٹیں گے اور نشیبی بستیاں بھی زیر آب آئیں گی اس صورت میں وفاق اور صوبوں کی حکومتیں متاثرین کی دل کھول کر مدد کریں صرف وہی نہیں مخیر حضرات بھی آگے آئیں چھوٹی بڑی فلاحی تنظیمیں بھی متحرک ہوں اور کھانے پینے کی چیزیں اکٹھی کرکے متاثرین تک پہنچائیں ۔
خیرجب بھی کوئی حکومت عوام کو مسائل سے نجات دلانے کےلئے سر گرم عمل ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی قدرتی آفت آن پڑتی ہے جس سے ساری توجہ اس جانب مبذول ہو جاتی ہے اس کے باوجود وہ اپنے اہداف کی طرف بھی بڑھتی ہے تو اسے شاباش ضرور ملتی چاہیے تاکہ اس کو مزید خدمت کے لئے تقویت مل سکے اُس کا حوصلہ بڑھے اور وہ خوش دلی کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے مگر شاید ابھی ہمیں ایسا کرنے اور سوچنے میں ایک صدی درکار ہو گی کیونکہ ہم حقیقت کو حقیقت ماننے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں یہی چیز ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کو بہر صورت دُور ہونا چاہیے کہ ستتر برس بیت چکنے کے بعد بھی ہم خوشحالی کی منزل سے فاصلے پر کھڑے ہیں جبکہ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے اور ہم ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہیں !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button