
اسرائیلی کابینہ کا اٹارنی جنرل کو برطرف کرنے کا فیصلہ: جمہوری اداروں پر حملہ یا اصلاحات کی کوشش؟
اٹارنی جنرل نے حال ہی میں سیکیورٹی ایجنسی کے ایک غیر سیاسی عہدیدار کی برطرفی کے فیصلے کو روک دیا تھا
یروشلم (بین الاقوامی نیوز ڈیسک) — اسرائیل میں ایک نیا سیاسی بحران اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب وزیر اعظم نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی کابینہ نے متفقہ طور پر اٹارنی جنرل گالی بہروا میارا کو برطرف کرنے کے حق میں ووٹ دے دیا۔ اس اقدام نے نہ صرف حکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری کشیدگی کو بڑھا دیا ہے بلکہ اسرائیل کے جمہوری نظام اور آئینی ڈھانچے پر بھی سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
پس منظر: حکومت اور عدلیہ میں کشیدگی کی طویل تاریخ
اٹارنی جنرل گالی بہروا میارا کی برطرفی کوئی اچانک فیصلہ نہیں بلکہ یہ اُس طویل کشمکش کا تسلسل ہے جو گزشتہ چند برسوں سے نیتن یاہو حکومت اور عدالتی اداروں کے درمیان جاری ہے۔ نیتن یاہو، جنہیں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے، اور ان کی قوم پرست و مذہبی اتحادی حکومت پر ناقدین کا الزام ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو محدود کرکے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے حال ہی میں سیکیورٹی ایجنسی کے ایک غیر سیاسی عہدیدار کی برطرفی کے فیصلے کو روک دیا تھا، جس پر نیتن یاہو کے حامیوں نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ منتخب حکومت کے فیصلوں میں رکاوٹ ڈال کر اختیارات سے تجاوز کر رہی ہیں۔
‘اختیارات سے تجاوز یا قانون کی بالادستی؟’
اٹارنی جنرل نے اپنے دفاع میں کہا ہے کہ ان کا اقدام دراصل "مفادات کے ٹکراؤ” سے بچنے کے لیے تھا، کیونکہ نیتن یاہو اور ان کے کئی قریبی ساتھی اس وقت کرپشن کے مقدمات اور دیگر مجرمانہ تحقیقات کی زد میں ہیں۔ ایسے میں حکومتی سطح پر طاقت کے بے جا استعمال کو روکنا ان کا آئینی فریضہ تھا۔
ناقدین کا ردعمل: جمہوریت کے لیے خطرہ
اسرائیل اور بین الاقوامی سطح پر متعدد سیاسی و قانونی ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندے اور حزب اختلاف کے رہنما اس فیصلے کو "جمہوری اداروں پر حملہ” قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اٹارنی جنرل جیسے آزاد منصب کو محض سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنانا، اسرائیل جیسے جمہوری ملک کے لیے ایک خطرناک مثال ہے۔
سپریم کورٹ کا نوٹس اور شہری مزاحمت
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے فوری طور پر کابینہ کے اس فیصلے کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے اور اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، اسرائیلی سول سوسائٹی کی ایک معروف تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے 15,000 شہریوں کی جانب سے عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی ہے جس میں کابینہ کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
تنظیم کے مطابق:
"اس فیصلے نے اٹارنی جنرل کے آزاد کردار کو سیاسی بنا دیا ہے۔ جب تک یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا، اس کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔”
نیتن یاہو کا مؤقف
نیتن یاہو نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اقدامات جمہوری دائرہ کار میں ہیں اور عدالتی حکام انہیں اور ان کی حکومت کو میڈیا کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اصلاحات کا مقصد صرف حکومتی مشینری کو زیادہ مؤثر بنانا ہے، نہ کہ عدلیہ کو دبانا۔
عدلیہ میں اصلاحات کی متنازع کوششیں
یاد رہے کہ 2023 میں بھی نیتن یاہو حکومت نے عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی تھی، جس پر ملک گیر مظاہرے ہوئے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہی داخلی انتشار اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے وقت اسرائیل کی دفاعی کمزوری کی ایک بڑی وجہ تھا۔
سیاسی اثرات اور مستقبل کی صورتحال
اٹارنی جنرل کی برطرفی اور اس کے خلاف عوامی و عدالتی مزاحمت نے اسرائیلی سیاست کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے کابینہ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا، تو یہ حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔ دوسری جانب، اگر عدلیہ حکومت کے مؤقف کو تسلیم کرتی ہے، تو یہ عدالتی آزادی اور نظامِ انصاف کے لیے ایک سیاہ باب تصور کیا جائے گا۔
بین الاقوامی برادری کی تشویش
امریکی اور یورپی سفارتی ذرائع بھی اسرائیل کی اندرونی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر حکومت اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی مزید بڑھی تو اس کے اثرات اسرائیل کے دفاع، معیشت اور خطے میں اس کے تعلقات پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
قانون کی حکمرانی یا سیاسی بالادستی؟
اٹارنی جنرل کی برطرفی کے فیصلے نے اسرائیل کی جمہوری بنیادوں پر ایک کڑا سوال کھڑا کر دیا ہے — کیا حکومت واقعی اصلاحات چاہتی ہے، یا یہ طاقت کی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش ہے؟ عوام، عدلیہ اور عالمی برادری کی نظریں اب سپریم کورٹ کے فیصلے پر مرکوز ہیں، جو اس تنازعے کا رخ متعین کرے گا۔