اہم خبریںمشرق وسطیٰ

ہم غزہ کے انتظامی امور سے متعلق کسی بھی بندوبست کا حصہ بننا نہیں چاہتے،حماس

حماس کے رہنما نے عرب دنیا، خاص طور پر سعودی عرب کی جانب سے "غزہ کے عوام کی حمایت اور جبری نقل مکانی کی سازشوں کو روکنے" کی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کیا۔

حماس کے ایک رہنما نے تنظیم کے اس اعلان شدہ موقف کی تجدید کی ہے کہ وہ غزہ پر حکمرانی یا وہاں انتظامی کنٹرول سنبھالنے کی خواہاں نہیں۔ رہنما نے اس بات پر زور دیا ہے کہ "ہم غزہ کے انتظامی امور سے متعلق کسی بھی بندوبست کا حصہ بننا نہیں چاہتے، اور نہ حکومت یا حکمرانی میں شریک ہوں گے”۔

حماس کے رہنما نے عرب دنیا، خاص طور پر سعودی عرب کی جانب سے "غزہ کے عوام کی حمایت اور جبری نقل مکانی کی سازشوں کو روکنے” کی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کیا۔

سرحدی گزرگاہوں کا کھولنا

حماس کے رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر "العربیہ ڈاٹ نیٹ” سے خصوصی گفتگو کی۔ رہنما کے مطابق "غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کا موجودہ طریقہ ناکافی ہے اور مقامی آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا”۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ "حل سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے اور امداد کے باقاعدہ، ہموار اندراج میں ہے۔”

جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس سے (فائل فوٹو - رائٹرز)
(فائل فوٹو – رائٹرز)

اسی تناظر میں انھوں نے انکشاف کیا کہ "حماس سرحدی گزرگاہوں کے انتظام یا امداد کی نگرانی سے متعلق کسی بھی بندوبست کا حصہ بننے کی خواہاں نہیں”۔ رہنما نے مطالبہ کیا کہ گزرگاہ کا انتظام "فلسطینی – مصری” اشتراک کے تحت ہو، جیسا کہ اسرائیلی جنگ سے قبل کیا جاتا تھا۔

نیویارک کانفرنس اور سعودی موقف

حال ہی میں سعودی اور فرانسیسی دعوت پر دو ریاستی حل سے متعلق نیویارک میں منعقدہ کانفرنس کے نتائج کے حوالے سے، حماس کے رہنما نے زور دے کر کہا کہ "یہ کانفرنس ایسے نازک وقت میں منعقد ہوئی جب فلسطینی مسئلے کو جبری نقل مکانی کی پالیسیوں کے ذریعے ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ "یہ کانفرنس فلسطینی عوام کے حقوق کی توثیق میں معاون ثابت ہوئی”۔

حماس رہنما نے بین الاقوامی فورموں پر فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے سعودی عرب کی مسلسل کوششوں کو سراہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ "سعودی عرب کی مضبوط بین الاقوامی موجودگی اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے اور جنگ کے بعد کے مرحلے کی تشکیل میں کردار ادا کرے”۔ ان کا کہنا تھا "سعودی عرب، عالمی سطح پر اپنی مؤثر موجودگی کے ذریعے فلسطینی حق کو تقویت دینے اور اس کو ختم کرنے کی کوششوں کو روکنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے، خاص طور پر جنگ کے بعد کے مرحلے میں”۔

منگل کو غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد اٹھنے والا دھویں کا بادل (اے ایف پی)
(اے ایف پی)

اسلحے سے دست برداری؟

"حماس” کو غیر مسلح کرنے کے مطالبات پر رد عمل دیتے ہوئے رہنما نے کہا "مسئلہ کبھی بھی اسلحے میں نہیں رہا، اور فی الوقت کسی اسلحہ چھوڑنے کی بات ممکن نہیں۔”

انہوں نے کہا "فلسطینی عوام اور حماس، اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غیر معمولی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، اور ہم ہر اس کوشش اور دباؤ سے مثبت طور پر نمٹ رہے ہیں جو جارحیت کے خاتمے کی نیت سے ہو۔”

غزہ پر دوبارہ قبضے کی وارننگز

اس کے ساتھ ہی حماس رہنما نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے بار بار دیے گئے ان بیانات پر بھی خبردار کیا جن میں اُنھوں نے غزہ پر مکمل قبضے کی بات کی ہے۔ رہنما کا کہنا تھا "یہ بیانات قابض فریق کے ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جارحیت میں شدت لانا چاہتا ہے … غزہ پر کسی بھی زمینی یلغار کی کوشش اسرائیلی قیدیوں کی زندگی کو انتہائی خطرے میں ڈال دے گی … اس انتباہ کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے”۔

خان یونس، جنوبی غزہ سے (فائل فوٹو - رائٹرز)
(فائل فوٹو – رائٹرز)

آخر میں تنظیم کے رہنما نے کہا کہ "حماس اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کے جذبات کو سمجھتی ہے، کیونکہ ہر فلسطینی گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اسرائیلی جیلوں میں قید ہے”۔ تاہم رہنما نے نیتن یاہو کو قصوروار ٹھہرایا اور کہا "مسئلہ اسرائیلی وزیراعظم کا ہے جو قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کو مکمل کرنے سے انکار کر رہا ہے اور اس سلسلے میں جاری تمام کوششوں کو ناکام بنا رہا ہے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button