
سوموار کو سنجیدگی سے لیں — شاید یہی آپ کے دل کی حفاظت کا پہلا قدم ہو۔
"منڈے بلیوز" محض ایک اصطلاح نہیں: سوموار کا تناؤ انسانی صحت کے لیے خطرہ، نئی تحقیق کا انکشاف
خصوصی رپورٹ
ایک تازہ بین الاقوامی تحقیق نے اس عام تصور کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کر دیا ہے کہ ہفتے کے آغاز پر یعنی سوموار کو لاحق ہونے والا ذہنی تناؤ (جسے عموماً "منڈے بلیوز” کہا جاتا ہے) انسانی جسم پر دیرپا اور خطرناک طبی اثرات مرتب کر سکتا ہے، خاص طور پر 50 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے یہ تناؤ ہارٹ اٹیک اور دل کے دیگر امراض کا باعث بن سکتا ہے۔
تحقیق کی تفصیلات
یہ تحقیق یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کی جانب سے کی گئی اور رواں ماہ عالمی سائنسی جریدے "جرنل آف ایفیکٹیو ڈس آرڈرز” میں شائع ہوئی۔
تحقیقی ٹیم نے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 3,500 افراد کا تجزیہ کیا، جن کی عمریں 50 سال یا اس سے زائد تھیں۔ ان میں ملازمت پیشہ اور ریٹائرڈ افراد شامل تھے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ سوموار کے دن تناؤ سے متعلق ہارمون "کارٹیسول” کی سطح دیگر دنوں کے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ تھی۔
یہ سطح شرکاء کے بالوں کے نمونوں سے ناپی گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سوموار کا تناؤ صرف ایک وقتی احساس نہیں بلکہ جسمانی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔
دل کے امراض سے براہ راست تعلق
تحقیق کی مرکزی مصنفہ، پروفیسر تارانی چنڈولہ کے مطابق، "ہفتے کے آغاز پر جسم میں پیدا ہونے والا حیاتیاتی تناؤ دل پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے، جو دل کے امراض اور ہارٹ اٹیک جیسے جان لیوا مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔”
ان کے مطابق، یہ تناؤ صرف جاب کے دوران نہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جسم میں موجود رہتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہفتوں، مہینوں یا برسوں کا دباؤ کیسے انسان کے اندر مستقل ٹھکانہ بنا لیتا ہے۔
تحقیق میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ دنیا بھر میں سوموار کے روز ہارٹ اٹیک کے واقعات کی شرح 19 فیصد زیادہ ہے، جو کہ براہِ راست منڈے بلیوز سے جڑی ہوئی ہے۔
پاکستانی تناظر: تعلیم اور کام کی جگہ پر دباؤ
فیصل آباد کی رہائشی آمنہ قمر، جو ایک تجربہ کار استاد ہیں، نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جب انہوں نے ملازمت کا آغاز کیا تو سوموار کا دن ان کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی مانند تھا۔
ان کے مطابق پاکستانی تعلیمی نظام میں بچوں کو روایتی انداز میں پڑھانے کا دباؤ خاص طور پر سوموار کو شدت اختیار کر لیتا تھا۔
آمنہ نے ماہر نفسیات کی مدد سے ورزش، نیند کے اوقات کی تنظیم اور طرز زندگی میں تبدیلی کے ذریعے اس تناؤ پر قابو پایا۔ آج وہ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود سوموار کو ہفتے کے کسی عام دن کی طرح گزارتی ہیں۔
منڈے بلیوز: ایک ’ثقافتی ذہنی دباؤ‘
راولپنڈی کے کلینیکل سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر عمر حیات کے مطابق، اگرچہ منڈے بلیوز کوئی طبی بیماری نہیں، مگر یہ شدید ذہنی دباؤ کی ایک شکل ہے جو خاص طور پر بعض افراد پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
ان کے مطابق:
"یہ ڈپریشن سے مختلف ہے کیونکہ اس کا تعلق مخصوص دن یعنی سوموار سے ہوتا ہے، اور جیسے جیسے ہفتہ آگے بڑھتا ہے، اس کی شدت کم ہو جاتی ہے۔”
ڈاکٹر عمر نے تحقیق کو ایک "کلچرل سٹریس ایمپلی فائر” قرار دیا، یعنی ایسا دباؤ جو سماجی طور پر تسلیم شدہ، مگر جسمانی طور پر نقصان دہ ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ:
"اگر کوئی شخص 25 سال تک ہر سوموار کو شدید ذہنی دباؤ محسوس کرے، تو یہ جسم پر وہی اثر ڈال سکتا ہے جیسے روز دیوار پر کیل ٹھونکی جائے۔ ایک نہ ایک دن دیوار کمزور ہو ہی جاتی ہے۔”
کیا کیا جائے؟
ڈاکٹر عمر اور دیگر ماہرین کے مطابق اس مسئلے کا حل صرف طبی نہیں بلکہ سماجی، ثقافتی اور ادارہ جاتی سطح پر بھی درکار ہے:
اداروں میں لچکدار اوقات کار کا نفاذ
کام کے آغاز پر ہلکے پھلکے شیڈول
مراقبہ، ورزش، مناسب نیند اور تروتازہ طرز زندگی
ذہنی صحت کے ماہرین سے مشورہ
ملازمین کے لیے ذہنی تناؤ سے بچاؤ کی ورکشاپس
نتیجہ:
یہ تحقیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ "منڈے بلیوز” محض ایک مزاحیہ اصطلاح نہیں بلکہ ایک سنجیدہ صحت کا مسئلہ بن چکی ہے، خاص طور پر معمر اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے۔ اس کے اثرات نہ صرف ذہن بلکہ دل پر بھی پڑتے ہیں — ایک ایسا عضو جس کا ٹوٹنا ہمیشہ خبر بناتا ہے، لیکن تناؤ سے اس کی خاموش ٹوٹ پھوٹ اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے۔