
پاکستان میں رینسم ویئر حملوں میں تشویشناک اضافہ: شہری اور ادارے خطرے میں
اس ڈیٹا کو کھولنے کی "کی" صرف انہی کے پاس ہوتی ہے، جس کے بدلے میں وہ تاوان طلب کرتے ہیں۔
اسپیشل رپورٹ
پاکستان میں ڈیجیٹل تاوان (رینسم ویئر) کے حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں عام شہریوں سے لے کر بڑے نجی ادارے اور سرکاری دفاتر تک، سب ہی سائبر مجرموں کے نشانے پر ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے کا سامنا اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی کے مالک کامل خان (فرضی نام) کو ہوا جب وہ دفتر پہنچے اور دیکھا کہ ان کی اہم فائلز اچانک لاک ہو چکی ہیں۔
کامل، جو کہ آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہیں، نے فوری طور پر جانچ شروع کی تو معلوم ہوا کہ ان کا کمپیوٹر ایک خطرناک وائرس کا شکار ہو چکا ہے جو فائلز کو انکرپٹ کر دیتا ہے۔ کمپیوٹر اسکرین پر ایک پیغام ظاہر ہو رہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فائلز کو واپس حاصل کرنے کے لیے مخصوص رقم، بٹ کوائن کی صورت میں، ادا کی جائے۔
ڈیجیٹل اغوا: فائلز کو یرغمال بنا کر تاوان طلبی
یہ طریقہ کار رینسم ویئر کہلاتا ہے جس کے تحت ہیکرز کسی صارف کے کمپیوٹر، موبائل یا پورے نیٹ ورک کو ہیک کر کے اہم ڈیٹا کو انکرپٹ کر دیتے ہیں۔ اس ڈیٹا کو کھولنے کی "کی” صرف انہی کے پاس ہوتی ہے، جس کے بدلے میں وہ تاوان طلب کرتے ہیں۔ تاوان عموماً کرپٹو کرنسی میں مانگا جاتا ہے تاکہ اس کی ترسیل کا پتہ نہ چل سکے۔
ماہرین کے مطابق، یہ سائبر حملے کئی ذرائع سے ہو سکتے ہیں جیسے:
جعلی ای میلز کے ذریعے خطرناک اٹیچمنٹس یا لنکس بھیجنا
جعلی سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کی آڑ میں وائرس داخل کرنا
غیرمحفوظ ویب سائٹس سے فائلز ڈاؤن لوڈ کرانا
بلیو لاکر: خاموش لیکن خطرناک میل ویئر
حالیہ حملوں میں جس وائرس کی شناخت ہوئی ہے، وہ ’بلیو لاکر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وائرس ای میل کے ذریعے کسی عام فائل کی صورت میں آتا ہے اور صارف کے کمپیوٹر میں انسٹال ہو کر اس کی فائلز کو لاک کر دیتا ہے۔ جیسے ہی متاثرہ فرد فائل کھولتا ہے، وائرس متحرک ہو جاتا ہے اور پورا سسٹم متاثر کر دیتا ہے۔
نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کی ایڈوائزری
پاکستان میں سائبر حملوں کی نگرانی اور اس سے بچاؤ کے لیے قائم نیشنل سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (PakCERT) نے حالیہ دنوں میں 39 سرکاری وزارتوں اور اداروں کو خصوصی خطوط جاری کیے ہیں، جن میں انہیں فوری طور پر سائبر سکیورٹی کے حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ایڈوائزری میں متنبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں رینسم ویئر حملے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں، اور اداروں کو نہایت احتیاط کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
’رینسم ویئر ایک جدید ڈیجیٹل جرم ہے‘: ماہرین کی رائے
سائبر سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان کا کہنا ہے کہ:
"رینسم ویئر حملے ایسے ہی ہیں جیسے کوئی آپ کے پیارے کو اغوا کر لے اور پھر تاوان طلب کرے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں فائلز اور ڈیٹا کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ حملے اب زیادہ منظم اور پیشہ ور گروہوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں، جنہیں دنیا بھر میں تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے ڈیپ ویب اور انکرپٹڈ نیٹ ورکس استعمال کرتے ہیں۔
عوام اور ادارے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
ماہرین نے رینسم ویئر حملوں سے بچنے کے لیے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی سفارش کی ہے:
ریگولر بیک اپ: اپنی اہم فائلز کا باقاعدہ بیک اپ رکھیں تاکہ کسی حملے کی صورت میں کم از کم ڈیٹا ضائع نہ ہو۔
اپ ڈیٹڈ اینٹی وائرس: جدید اور مستند اینٹی وائرس سافٹ ویئر انسٹال رکھیں۔
مشکوک ای میلز سے پرہیز: کسی بھی نامعلوم یا مشکوک ای میل یا لنک پر کلک کرنے سے گریز کریں۔
سافٹ ویئر اپ ڈیٹس: سسٹمز اور سافٹ ویئر کو ہمیشہ اپ ٹو ڈیٹ رکھیں تاکہ سکیورٹی پیچز مؤثر رہیں۔
پاس ورڈ مینجمنٹ: مضبوط اور منفرد پاس ورڈ استعمال کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں۔
دوہری توثیق (Two-Factor Authentication): جہاں ممکن ہو، دوہری توثیق کا استعمال کریں۔
قانونی تحفظ اور رپورٹنگ کا عمل
اگر کوئی فرد یا ادارہ رینسم ویئر یا کسی بھی قسم کے سائبر حملے کا شکار ہوتا ہے تو فوری طور پر فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (FIA) کے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ PakCERT اور پی ٹی اے بھی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل تاوان یا رینسم ویئر حملے ایک نیا خطرہ بن چکے ہیں، جو نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ اداروں کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس صورتحال میں شعور، احتیاط اور سائبر سکیورٹی کو اولین ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔