باجوڑ / پشاور ( نمائندہ خصوصی) — پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘ کا آغاز کر دیا ہے، جس کے دوران ہیلی کاپٹروں کی مدد سے شدت پسندوں کے سرحدی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس آپریشن کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، تاہم مقامی ذرائع اور حکام نے اس کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کا دائرہ کار مخصوص علاقوں اور اہداف تک محدود ہے۔
شدت پسندوں کے خلاف کارروائی، لیکن شہری بھی متاثر
ذرائع کے مطابق یہ کوئی وسیع پیمانے کی فوجی کارروائی نہیں بلکہ شدت پسندوں کے مخصوص ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ عام شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ تاہم، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ شدید گولہ باری اور فضائی حملوں کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے، اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اب تک نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ان بے گھر افراد کو عارضی کیمپس میں رکھا جا رہا ہے، جبکہ امدادی ادارے متاثرہ خاندانوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فضائی حملے اور سرحدی بمباری
عینی شاہدین اور مقامی صحافیوں کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے سرحدی پہاڑی علاقوں میں واقع شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی ہے۔ یہ علاقے افغان سرحد کے نہایت قریب واقع ہیں، جہاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عناصر کی موجودگی کی اطلاعات کئی ماہ سے موصول ہو رہی تھیں۔
پولیس چیف ذوالفقار حمید نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آپریشن جاری ہے اور شدت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے اور فورسز مکمل پیشہ ورانہ طریقے سے اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
پس منظر: ٹی ٹی پی کی بڑھتی سرگرمیاں
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک الگ تنظیم ہے لیکن افغان طالبان کی قریبی حلیف سمجھی جاتی ہے۔ اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد، متعدد ٹی ٹی پی جنگجو اور رہنما افغانستان میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ باجوڑ اور دیگر سرحدی علاقوں میں ان کی موجودگی کے باعث پاکستانی فورسز کو ایک بار پھر سرحدی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
باجوڑ میں 2009 میں بھی ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تھا جس میں پاکستانی اور غیر ملکی جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت بھی لاکھوں مقامی افراد بے گھر ہوئے تھے۔ اب ایک بار پھر علاقے میں کشیدگی کی فضا ہے، اور مقامی آبادی ایک نئے انسانی بحران سے دوچار ہو رہی ہے۔
عوامی ردعمل: دونوں طرف مخالفت
خیبر پختونخوا کے سابقہ قبائلی علاقوں، جنہیں اب بندوبستی اضلاع کا درجہ دے دیا گیا ہے، کے ہزاروں افراد عسکریت پسندوں کے تشدد اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں دونوں کی مخالفت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ہر بار فوجی کارروائی کے نتیجے میں عام شہری متاثر ہوتے ہیں، جب کہ شدت پسند ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا اور مقامی فورمز پر بھی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مسئلے کا دیرپا اور سیاسی حل نکالے تاکہ بار بار کی نقل مکانی، معاشی بدحالی اور انسانی بحران کا سلسلہ بند ہو۔
باجوڑ میں جاری یہ ٹارگٹڈ آپریشن ایک بار پھر اس امر کی یاددہانی ہے کہ پاکستان کو نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ شدت پسندی اور اس کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائیوں کے درمیان پسنے والی مقامی آبادی ایک بار پھر متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت، سیکیورٹی اداروں اور انسانی حقوق کے اداروں پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر متاثرہ افراد کی بحالی، شفاف معلومات کی فراہمی، اور پائیدار امن کے قیام کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کریں۔



