پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

یومِ آزادی کے دن فیصل آباد میں احمدیہ کمیونٹی پر حملہ: مذہبی رواداری کے دعوؤں کو چیلنج

اطلاعات کے مطابق ہجوم نے پہلے نفرت انگیز تقاریر کیں، پھر احمدیہ عبادت گاہوں پر حملہ کر دیا۔ یہ دونوں عبادت گاہیں 1984 سے پہلے تعمیر کی گئی تھیں

رپورٹ: خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق – فیصل آباد:

جب پوری قوم پاکستان کے 78 ویں یومِ آزادی کی خوشیاں منا رہی تھی، اس دن کو فیصل آباد کے نواحی علاقے ڈجکوٹ میں ایک احمدیہ کمیونٹی کے لیے خوف، حملوں اور تباہی میں بدل دیا گیا۔ قومی پرچموں، حب الوطنی کے نعروں اور آزادی کی ریلیوں کی آڑ میں، ایک مشتعل ہجوم نے احمدیوں کی دو تاریخی عبادت گاہوں پر حملہ کر دیا، انہیں نقصان پہنچایا اور ایک کو مکمل طور پر نذر آتش کر دیا۔

واقعہ 275 کرتارپور کے مقام پر پیش آیا، جہاں مقامی اطلاعات کے مطابق ہجوم نے پہلے نفرت انگیز تقاریر کیں، پھر احمدیہ عبادت گاہوں پر حملہ کر دیا۔ یہ دونوں عبادت گاہیں 1984 سے پہلے تعمیر کی گئی تھیں، جو انہیں آئینی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، ان پر حملہ کیا گیا، میناروں کو توڑا گیا، اور ایک جگہ کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق، حملہ کم از کم دو گھنٹے تک جاری رہا، مگر پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کی کوئی بروقت مداخلت نظر نہیں آئی۔ ہجوم مکمل آزادی کے ساتھ توڑ پھوڑ، آگ زنی، اور حملے کرتا رہا۔ احمدیوں کے قریبی گھروں پر بھی حملے کیے گئے۔ پتھراؤ سے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے، خواتین اور بچوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ احمدیہ کمیونٹی کے کئی افراد پر تشدد بھی کیا گیا۔کئی افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو مقامی سطح پر طبی امداد دی گئی، تاہم بعض کو اسپتال منتقل کرنا پڑا۔

ریاستی اداروں کی خاموشی پر سوالات

یہ واقعہ ریاستی اداروں، بالخصوص پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ 14 اگست جیسا حساس دن، جب سیکیورٹی ہائی الرٹ ہونی چاہیے، اس روز ایسے واقعات کا پیش آنا انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔

مذکورہ عبادت گاہیں چونکہ 1984 کی پابندیوں سے قبل قائم کی گئی تھیں، اس لیے قانونی طور پر ان کا تحفظ آئین اور عدالتی احکامات کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف انہیں نشانہ بنایا گیا بلکہ ریاست خاموش تماشائی بنی رہی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردعمل

واقعے کے بعد کئی مقامی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا:

"یہ وہ آزادی نہیں ہے جس کا خواب قائداعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ اقلیتوں کے تحفظ اور برابری کا وعدہ کرنے والی ریاست میں اگر ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے رہیں، تو عدم برداشت اور انتہا پسندی کو مزید فروغ ملے گا۔”

قومی بیانیہ اور اقلیتوں کے تحفظ کا بحران

پاکستان کے آئین کے مطابق، تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب، مسلک یا عقیدہ، برابر حقوق حاصل ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ احمدیہ کمیونٹی سالہا سال سے شدید امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بن رہی ہے۔ ہر یومِ آزادی کے موقع پر جہاں قومی یکجہتی، آزادی اور مساوات کے دعوے کیے جاتے ہیں، وہیں ایسے واقعات ان دعووں کو سختی سے چیلنج کرتے ہیں۔

مطالبات اور ممکنہ اقدامات

متاثرہ کمیونٹی، انسانی حقوق کے کارکنان، اور سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ:

  1. حملہ آوروں کو فوری طور پر گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے؛

  2. احمدیہ عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کے لیے مستقل اقدامات کیے جائیں؛

  3. پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی غفلت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائیں؛

  4. ریاستی سطح پر نفرت انگیز بیانیے کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔


یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کی ایک اور یاد دہانی ہے کہ پاکستان میں مذہبی رواداری، آئینی تحفظات اور انسانی حقوق کے بیانیے کو عمل میں لانے کے لیے ابھی ایک طویل سفر باقی ہے۔


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button