کالمزناصف اعوان

نقار خانے میں طوطی کی آواز….ناصف اعوان

عوام نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ عمران خان کے علاؤہ کسی کی باتوں میں نہیں آئیں گے یہی وجہ ہے کہ اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے

جس طرح یادوں کو ذہن کی تختی سے کُھرچ کُھرچ کر بھی نہیں مٹایا جا سکتا اس طرح کوئی شخص دل میں بس جائے دماغ میں سما جائے تو اسے باہر نہیں نکالا جا سکتا مگر کچھ لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ؟
جی ہاں ! اس وقت ایک ایسا شخص جس نے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اس کے حریف چاہتے ہیں کہ وہ اس کی جگہ لے لیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پارہے اگرچہ وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کےلئے انہیں کچھ سہولتیں بھی دے رہے ہیں نظام حیات کوبھی تھوڑا تبدیل کرنے جا رہے ہیں اس کے باوجود وہ ایک شخص عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا ہے ۔ اس کو غیر مقبول بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اُسی کی طرح کا رویہ اور انداز زیست اختیار کیا جائے تو ایک حد تک بات بن سکتی ہے مگر اہل اقتدار کا طرز عمل و حکمرانی تبدیل نہیں ہو رہا وہ ابھی تک غیر عوامی انداز اپنانے ہوئے ہیں یعنی وہ شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں لہذا عوام نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ عمران خان کے علاؤہ کسی کی باتوں میں نہیں آئیں گے یہی وجہ ہے کہ اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ جب حکومت انہیں کچھ ریلیف بھی دے رہی ہے تو بھی ان کی سوئی خان پر ہی اٹکی ہوئی ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ خان جیل میں بند ہے لہذا جوں جوں وقت گزر رہا ہے وہ دل کی ہر پرت میں پیوست ہوتا جا رہا ہے ۔بیرون میں بھی اس کے چرچے ہیں جب بھی وہ کوئی کال دیتا ہے سڑکیں اس کے پارٹی جھنڈوں سے رنگین ہو جاتی ہیں مگر ہمارے اہل سیاست و اقتدار اس بات کو نہیں سمجھ رہے ؟
چودہ اگست کے روز پی ٹی آئی کے کارکنان نے جس طرح خان سے ہکجہتی و محبت کا اظہار کیا اسے سب دیکھ چکے ہیں. حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ وہ اسے قصہ پارینہ میں بدل دے مگراس کےلئے اسے اپنی مروجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑے گی ۔عوام کو کھلی چھوٹ دے دی جائےکہ وہ کوئی پُر امن احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں روکا نہ جائے انہیں نت نئے لگائے جانے والے ٹیکسوں سے نجات دلائی جائے ۔بعض لوگ پنجاب حکومت کی حال ہی میں تشکیل دی جانے والی فورسز سےبھی نالاں ہیں اس حوالے سے انہیں اعتماد میں لیا جائے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اقتدار والوں نے ہمیشہ خود کو دانا و بینا تصور کیا ہے چلئے وہ عقلمند ہھی ہوتے ہیں
تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ملک کی معیشت اور سماجیات زبوں حالی کا شکار کیوں ہے ؟قرضوں کاحجم کیوں بڑھتا چلا جا رہا ہے اور سیاسی بحران پر قابو کیوں نہیں پایا گیا ہے ان سوالات کے جوابات وہ نہیں دے سکیں گے کہ جب توجہ ہی اپنی ذات اور اپنے آشیر ںادیوں پر مرکوز ہو تو امورحیات و مملکت میں کوتاہی آئے گی ہی ؟ اسی لئے اب تک یہی کچھ ہوتا آیا ہےایک دوسرے کو دبانے اور جھکانے سے متعلق ہی زیادہ سوچا گیا جس نے عوام میں غم وغصہ کو جنم دیا جسے ختم کرنے کے لئے سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا لہذا ایسے ماحول میں عوام کی محبت حاصل نہیں کی جا سکتی ہاں ایک وقت تھا جب لوگ حکمرانوں کے طرز عمل جیسا بھی ہوتا کو کوئی مصلحت سمجھتے ہوئے خاموش رہتے یعنی وہ کہتے کہ ہوسکتا ہے اس میں ان کی کوئی ہہتری موجود ہو مگر اب جب اٹھہتر برس کے مشاہدے اور تجربے سے وہ کچھ سیکھ چکے ہیں کہ انہیں ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا چشم تصور میں خوبصورت مناظر دکھائے گئے مگر عملاً کچھ نہ ہوا۔ انہیں اقتدار سے غرض ہوتی اپنے اثاثے بڑھانا مقصود تھے لہذا اب وہ ان پر اعتبار نہیں کر رہے وہ انہیں سونے کا بھی بن کر دکھائیں تتے توے پر بھی بیٹھیں پھر بھی وہ ان سے بدگماں ہوں گے اس کا اظہار بھی وہ کرنےلگے ہیں جو اہل اقتدار کو پسند نہیں مگر لاوا پھوٹ رہا ہے لوگ جزباتی ہو رہے ہیں اس صورت میں اگر انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ لب نہ کھولیں تو یہ ممکن نہیں وہ ایسے احکامات ماننے کو تیار نہیں ؟
حقیقت یہی ہے کوئی مانے یا نہ مانے ان کی سیاسی سوچ کو دیکھتے ہوئے یورپ و مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایک حد تک وہاں کی حکومتیں بھی غور کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے اقتدار کی مچان پر بیٹھنے والوں کو بھی اس کا اندازہ ہو چکا ہے کیونکہ وہ عوام میں مطلوبہ ومناسب مقام حاصل نہیں کر سکے کوئی تبدیلی نہیں لا سکے لاتے بھی کیسے جب ساری پالیسیاں اور پروگرامز عوام کا سکون چھین لینے والے ہوں ۔ٹیکس لگا لگا کر انہیں چکرا کر رکھ دیا جائے‘ بجلی ‘گیس اور پٹرول مہنگا کرکے ان کی جمع پونجی بھی ہتھیا لی جائے تو وہ حکومت کو شا باش کیسے دیں گے کیسے اس کے گیت گائیں گے ۔اہل اختیار کو چاہیے کہ وہ لہجوں میں نرمی اور اپنائیت کا رس گھولیں تاکہ معاملات بہتر ہو سکیں !
یہاں ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہم صرف اپنی ناقص عقل کے مطابق حالات کا تجزیہ کرتے ہیں جو کسی کے حق میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی کے حق میں نہیں بھی ہو سکتا ۔ اس صورت میں جانبداری کا لیبل بھی لگ سکتا ہے جوکہ درست نہیں ۔
بہر حال پی ٹی آئی ایک مقبول ترین سیاسی جماعت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس کے کارکنان بڑے پُر جوش ہیں اپنے لیڈر پر صدقے واری جا رہے ہیں وجہ اس کی وہی کہ وہ جیل میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ان کی خاطر مشکلات کا سامنا کررہا ہے لہذا جب تک اسے باہر نہیں لایا جاتا اس کی مقبولیت بڑھتی ہی چلی جائے گی کم بالکل نہیں ہو گی خواہ حکومت عوامی فلاح کے کتنے ہی منصوبے بنا ڈالے ایسا بھی ہے کہ ایک طرف کوئی سہولت دی جاتی ہے تو دوسری جانب کوئی سہولت واپس بھی لے لی جاتی ہے پھر یہ بھی دیکھیے کہ تمام منصوبے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں ظاہر ہے ان کی واپسی بھی ہونی ہوتی ہے جسے بھاری ٹیکس لگا کر ہی ممکن بنایا جاتا ہے لہذا عارضی ریلیف کا کیا فائدہ جو بعد میں ایک پہاڑ بن جائے ضروری ہے کہ دیرپا پروگراموں کا آغاز کیا جائے جس کےلئے سیاسی استحکام لایا جائے جواس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے اس سے گفتگو کی جائے کچھ اس کی سنی جائے کچھ اپنی سنائی جائے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button