بین الاقوامی

سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ اور خطے میں پانی کی جنگ کا خطرہ: پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی نئی لہر

عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک کوئی مخصوص استثنائی حالات پیدا نہ ہوں، بھارت کو پاکستان کے زرعی، صنعتی اور شہری مفادات کے لیے دریا بہنے دینے ہوں گے۔

 نئی دہلی / ہیگ – 28 اگست 2025

جنوبی ایشیا کے دو ازلی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر پانی تنازعے کا مرکز بن گیا ہے، جس کے پس منظر میں 1960ء کے تاریخی سندھ طاس معاہدے پر عالمی عدالت برائے مستقل ثالثی (PCA) کی تازہ تشریحات سامنے آ چکی ہیں۔ ہیگ میں قائم اس عدالت نے بھارت کو ہدایت دی ہے کہ وہ پاکستان کے لیے مخصوص دریاؤں — سندھ، جہلم اور چناب — کے پانی کے بہاؤ کو "غیر محدود” طور پر جاری رکھے، جب تک کہ معاہدے میں درج خاص شرائط واقع نہ ہوں۔

عدالت کا فیصلہ: "پانی کو بہنے دیں”

عالمی عدالت نے معاہدے کے کلیدی نکات کی تشریح کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ ان دریاؤں پر ایسی کوئی کارروائی نہ کرے جو پاکستان کے پانی کے استعمال کو محدود کرے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک کوئی مخصوص استثنائی حالات پیدا نہ ہوں، بھارت کو پاکستان کے زرعی، صنعتی اور شہری مفادات کے لیے دریا بہنے دینے ہوں گے۔

تاہم، بھارت نے عدالت کے فیصلے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

بھارت کا ردعمل: "فیصلہ غیر متعلق اور غیر قانونی”

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے فیصلے کو "دائرہ اختیار سے خالی، قانونی حیثیت سے عاری” قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے نہ تو ثالثی عدالت کو تسلیم کیا اور نہ ہی اس کے فیصلے کو مانتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "پاکستان کے گمراہ کن دلائل اور حوالوں پر مبنی فیصلے بھارت کے آبی منصوبوں یا خودمختاری پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے۔”

یہ موقف اس وقت اختیار کیا گیا ہے جب بھارت پہلے ہی معاہدے کی معطلی کا عندیہ دے چکا ہے، بالخصوص اپریل میں بھارتی کشمیر میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ خطاب میں واضح کیا کہ:

"خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہ سکتے”

معاہدے کی معطلی: حقیقی اقدام یا علامتی بیان؟

ابھی تک بھارت کی جانب سے درحقیقت دریاؤں کا پانی روکنے کا کوئی عملی قدم سامنے نہیں آیا، تاہم نئی دہلی کی بیان بازی نے خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے پانی روکنے کی کوئی ٹھوس کوشش کی، تو یہ "جنگی اقدام” تصور کی جائے گی، جیسا کہ پاکستان پہلے ہی خبردار کر چکا ہے۔

پاکستان کا موقف: عالمی فورمز پر آواز بلند کرنے کی تیاری

پاکستانی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ وہ عدالت کے اس فیصلے کو اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر عالمی فورمز پر لے جائے گا تاکہ واٹر سکیورٹی کو ایک بین الاقوامی مسئلہ بنایا جا سکے۔

پاکستان کے لاکھوں شہری — بالخصوص پنجاب اور سندھ کے کسان اور دیہی عوام — سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان دریاؤں سے ہی پاکستان کی زرعی معیشت، خوراک کی پیداوار اور دیہی زندگی کا دار و مدار وابستہ ہے۔

ڈیمز، دباؤ اور سفارتی چالیں

بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر مسلسل نئے ڈیمز اور نہری منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، جو پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بن چکے ہیں۔ بھارت میں موجودہ اور سابق سفارت کار اس کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی اسٹریٹجی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے دعویٰ کیا کہ اگلے پانچ سالوں میں بھارت مغربی دریاؤں پر مزید ڈھانچے تعمیر کرے گا تاکہ پاکستان پر پانی کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کیا جا سکے۔

قانونی، تکنیکی یا فوجی راستہ؟

سندھ بیسن پر تحقیق کرنے والے مصنف اور ماہر سنہا کے مطابق، عدالتوں کی حدود اور سیاسی جمود کے باعث اب صرف تکنیکی تعاون ہی ممکنہ حل ہے۔ انہوں نے تین قابل عمل تجاویز پیش کیں:

  1. ڈیٹا کا تبادلہ بحال کرنا

  2. منصوبوں کے ڈیزائن کا مشترکہ آڈٹ

  3. موسمیاتی اور آپریشنل حدود پر مفاہمت

تاہم، سنہا نے خبردار کیا کہ ان اقدامات کے بغیر یہ تنازعہ فوجی کشیدگی میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو تقریباً 250 ملین آبادی والے اس خطے کے لیے تباہ کن ہو گا۔

مہندرا لاما کی وارننگ: "پانی کو فوجی زبان نہ دی جائے”

جنوبی ایشیا کے ترقیاتی ماہر مہندرا لاما نے سخت الفاظ میں کہا کہ:

"پانی ایک قدرتی اور مشترکہ وسیلہ ہے، نہ کہ فوجی ہتھیار۔ اس کا حل تعاون، شفافیت اور سفارت کاری میں ہے، نہ کہ دھمکیوں، معطلیوں یا دباؤ میں۔”

ان کے مطابق اگر معاہدے پر نظرثانی کرنی ہے تو وہ صرف ماحولیاتی تبدیلی، ٹیکنالوجی کی ترقی یا مشترکہ مفاد کی بنیاد پر ہونی چاہیے، نہ کہ سیاسی دشمنی یا دہشت گردی جیسے متنازعہ معاملات پر۔

مستقبل کی راہ: امن یا آبی جنگ؟

سندھ طاس معاہدہ طویل عرصے سے امن و استحکام کا ستون مانا جاتا تھا، لیکن حالیہ کشیدگی، بھارت کی جارحانہ حکمتِ عملی، اور پاکستان کے خدشات نے اسے ایک بحران کی شکل دے دی ہے۔

پاکستان کے لیے یہ معاملہ صرف پانی کا نہیں، بلکہ وجود، خودمختاری، اور معاشی سلامتی کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

اگر موجودہ کشیدگی بڑھتی ہے تو خطے میں نہ صرف آبی بحران، بلکہ جنگ کے خدشات بھی جنم لے سکتے ہیں۔


یہ خبر ایک جاری تنازعے کا احاطہ کرتی ہے، جس پر ہم مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پانی جیسا بنیادی مسئلہ، اگر سفارت کاری سے حل نہ ہوا تو ایک بڑے انسانی اور ماحولیاتی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button