کالمزناصف اعوان

آہیں ‘ سسکیاں اور صدائیں !……ناصف اعوان

جی ہاں ! فصلوں‘ دیہاتوں اور مکانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ایسے ایسے مقامات جو نگاہوں کا مرکز تھے اب اپنی جگہ موجود نہیں ۔افسوس صد افسوس ! دل واقعتاً خون کے آنسو روتا ہے ہولناک منظر دیکھے نہیں جاتے ۔

جب بھی ہم خطرات سے بے خبر ہوتے ہیں وہ خاموشی سے ہمارے قریب آجاتے ہیں !
سیلاب کو آئے طویل عرصہ گزرنے پر یہ سمجھا گیا کہ اب وہ کبھی نہیں آئے گا اور اگر آیا بھی تو معمولی ہو گا مگر اب جب اس نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے تو کہا جا رہا ہے کہ ایسا نہ ہوتا تو یہ نہ ہوتا وہ نہ ہوتا یعنی اگر کچھ ضروری اقدامات کر لئے جاتے تو بڑے نقصان سے بچا جا سکتا تھا مگر اب تو چڑیا کھیت چگ چکی ہیں۔
صوبہ پنجاب کے ایسے علاقے جہاں سیلابی پانی نہیں آتا تھا وہ بھی ڈوب گئے ہیں کیونکہ پانی اتنا ہے کہ اخیر ہو گئی ہے ۔ بادل گرجتے ہی نہیں برستے ہیں بلکہ پھٹے ہیں جیسے اوپر سے نیچے آبشاریں گرتی ہیں ۔ پہاڑوں میں جو باتیں ہوئیں ان سے پتھر تک لڑکھڑا گئے چکنا چور ہو گئے اور پھر پانی کے ساتھ بہنے لگے ان کے راستے میں جو بھی رکاوٹ تھی ہٹ گئی ۔ پھر وہ بستیوں میں داخل ہو گئے۔
اس وقت دریاؤں نے بھی انگڑائی لے لی ہے اور وہ اپنے پرانے ٹھکانوں کو ڈھونڈ رہے ہیں اور جس جس نے ان کے راستوں میں فصیلیں کھڑی کر رکھی ہیں ہٹاتے جا رہے ہیں اور وہ کسی کی آہ و بکا کو خاطر میں نہیں لارہے کس کا کتنا نقصان ہو رہا ہے کس نے کتنی محنت سے اپنا آشیانہ بنایا‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں اور وہ کسی ناگ کی طرح پھنکارتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں یوں ان کے راستے صاف اور واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں مگر اپنے پیچھے آہیں اور سسکیاں چھوڑ رہے ہیں۔
جی ہاں ! فصلوں‘ دیہاتوں اور مکانوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں ایسے ایسے مقامات جو نگاہوں کا مرکز تھے اب اپنی جگہ موجود نہیں ۔افسوس صد افسوس ! دل واقعتاً خون کے آنسو روتا ہے ہولناک منظر دیکھے نہیں جاتے ۔
سوال یہ ہے کہ جن کا کام کسی مشکل وقت کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے وہ اس کی تیاری کیوں نہیں کرتے ؟
اس کا جواب یہ ہو گا کہ انہیں ذاتی مفادات سے فرصت ہو تب ہی وہ کوئی لائحہ عمل اختیار کریں۔ وہ تو اپنے ”کاموں “ میں مصروف رہتے ہیں ان کے لئے دور تک سوچنا ممکن ہی نہیںں۔ ویسے بھی وہ عوامی مسائل کو ترجیح نہیں دیتے مگر سچ یہ بھی ہے کہ قدرتی آفات سے بچنا مشکل ہوتا ہے یعنی جب بارش انتہا کی ہو تو اس سے محفوظ رہنا آسان نہیں ہوتا لہذا کسی حکومت کو کُلی طور سے زمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا ہاں البتہ وہ متاثرین کو حوصلہ ضرور دے سکتی ہے اپنی بساط کے مطابق مالی مدد بھی کر سکتی ہے علاوہ ازیں تبدیل ہوتے عالمی ماحول پر اسے لازمی غور کرنا چاہیے عالمی ماحولیات کے ادارے اس حوالے سے بہت بڑی تبدیلی کی پیش گوئی کر رہے ہیں لہذا ہماری حکومتوں کو ضروری اقدامات کرنا ہوں گے ؟ بصورت دیگر بارشیں تو اسی طرح ہونی ہیں گلیشئیر بھی اسی طرح پگھلنے ہیں جو بے حد و حساب نقصانات کا سبب بنیں گے ۔ ظاہر ہے عوام کی طرف سے اس کا رد عمل شدید آئے گا معیشت کی گاڑی کو بھی دھکا لگانا پڑے گا ویسے تو اس وقت بھی اسے دھکا ہی لگایا جا رہا ہے مگر زیادہ نہیں لہذا جنگی بنیادوں پر کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے گا تو ہماری کچھ بچت ہو سکتی ہے کیونکہ اب بدلتے ماحول کو کسی صورت نظرا نداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہاں ہر کام ڈنگ ٹپاؤ ہوتا ہے عارضی بنیادوں پر منصوبے بنائے جاتے ہیں اور جو بنتے ہیں انہیں دوسری کوئی حکومت روک کر اپنا کوئی منصوبہ شروع کر دیتی ہے ۔اس سوچ کو بدلنا پڑے گا کیونکہ غیر سنجیدگی نے ملک و قوم کو بہت نقصان پہنچایاہے۔
بہرحال پانی کی گزرگاہ کو روکا نہیں جا سکتا مگر اس کا رخ ذرا سا تبدیل کیا جاسکتا ہے اس پر شاید کسی دریا ندی یا نالے کو اعتراض نہیں ہوتا مگر جب اس کی راہ مسدود کی جاتی ہے تو وہ اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے یہی اس وقت ہو رہا ہے جہاں جہاں رکاوٹیں ہیں وہاں وہاں بہت زیادہ تباہی ہو رہی ہے مگر گزر گاہوں سے ہٹ کر بھی تباہی ہو رہی ہے جو نسبتاً کم ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جدھر بھی سیلابی پانی گیا ہے اور جا رہا ہے کسانوں کی فصلیں برباد ہو گئی ہیں مگر عین ممکن ہے اگلی فصل کی پیداوار دُگنی ہو جائے کیونکہ بارشی پانی بہت طاقتور ہوتا ہے دریا کے قریب کھیتی باری کرنے والوں کو کھاد کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ بہرحال یہ ایک ارتقائی عمل ہے جو جاری و ساری ہے اس میں نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں اور پرانی معدوم ہو تی جا رہی ہیں لہذا ہمیں اس پہلو کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور سارا ملبہ حکومت پر نہیں ڈال دینا چاہیے جہاں تک اس کا تعلق ہے اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ سیلاب کا خطرہ جہاں کہیں بھی ہو وہاں جو بھی ممکن ہو سکتا ہے ‘کیا جائے کون سی آبادی کون سی سڑک یا کچھ اور اس کی راہ میں حائل ہے اس کو پرے کیا جائےکیونکہ یہ تو طے ہے نا کہ دنیا کا درجہ حرارت تبدیل ہو رہا ہے جس سے صدیوں پرانی برف پگھل رہی ہے ماہرین بہت پہلے اس کی نشان دہی کر چکے ہیں وہ تو اوزون کی طے میں سوراخ سے متعلق بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ بہت سے ممالک نے اس کی وجوہات کو دور کرنے سے متعلق اقدامات کیے بھی ہیں مگر ہم ایسے ناسمجھوں نے کبھی غور نہیں کیا یہاں ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ طوفانی بارشیں ہوں یا دریاؤں کی طغیانیاں ترقی یافتہ ملکوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں مگر چونکہ ان کی معیشتیں مضبوط ہیں لہذا وہ بڑے بڑے نقصانات کو برداشت کر جاتی ہیں ہم تو قرضے لے کر گزر بسر کر رہے ہیں ہمیں تو چند روز کی بارش بھی خاصا متاثر کر جاتی ہے لہذا اہل اختیار کو بدلتی رُت کو سامنے رکھتے ہوئے انتظامات کر لینا ہوں گے ۔ بھارتی آبی جارحیت کے حوالے سے بھی سوچ بچار کرنا ہوگی وہ پانی چھوڑتا ہے تو ہمیں اسے روکنا ہے ۔بہر کیف یہ بھی ہے کہ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ درختوں کی حفاظت نہیں کی جا رہی ٹمبرز مافیا بلا خوف ان اشجار کو ختم کر رہا ہے جو جہاں آکسیجن فراہم کرتے ہیں تو وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں یہ سب مقامی انتظامی اداروں اور مقامی بااثر افراد کی پشتی بانی سے ہوتا ہے لہذا ان سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہو گا وگرنہ اس وقت جو تباہی ہو رہی ہے اور ہو چکی ہے اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے جس کے ہم بالکل متحمل نہیں ہو سکتے۔
آخر میں اہل وطن سے گزارش ہے ہے کہ وہ تاریخ کی انتہائی مشکل ترین گھڑی میں اپنے ارد گرد کے متاثرہ افراد کی بہر صورت مدد کریں یہ ہمارا فرض ہے بیرونی دنیا بھی حسب سابق ہماری مالی امداد کرے جسے حکومت حق داروں تک شفاف انداز سے پہنچائے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button