پاکستاناہم خبریں

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے لیے دی گئی مہلت ختم، حکومت نے واپسی کا عمل تیز کر دیا

جن کے پاس "پروف آف رجسٹریشن (پی او آر)" یا "افغان کارڈز" کی قانونی حیثیت ختم ہو چکی ہے یا وہ کبھی باقاعدہ رجسٹرڈ ہی نہیں ہوئے

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ

پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے ملک میں مقیم تمام افغان پناہ گزینوں کو وطن واپسی کے لیے دی گئی مہلت 31 اگست کو ختم ہو چکی ہے، جس کے بعد حکام نے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں افغان پناہ گزینوں کے زیرِ استعمال موبائل سمز بند کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، جب کہ مختلف شہروں میں مقامی مالکان نے حکومتی ہدایات پر افغان کرایہ داروں کو مکانات خالی کرنے کے نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام ملک میں بڑھتی ہوئی غیرقانونی سرگرمیوں، سیکیورٹی خدشات، اور آبادی کے دباؤ کے تناظر میں ناگزیر ہو چکا تھا۔ تاہم، انسانی حقوق کے ماہرین اور پناہ گزینوں کی نمائندہ تنظیموں نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔


حکومتی مؤقف: غیر قانونی رہائش اور سیکیورٹی خطرات کو روکنا ضروری

وزارتِ داخلہ کے مطابق، پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں میں بڑی تعداد ان افراد کی ہے جن کے پاس "پروف آف رجسٹریشن (پی او آر)” یا "افغان کارڈز” کی قانونی حیثیت ختم ہو چکی ہے یا وہ کبھی باقاعدہ رجسٹرڈ ہی نہیں ہوئے۔ حکام کے مطابق، ان افراد کی موجودگی بعض علاقوں میں سماجی، معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز کا سبب بن رہی تھی۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود تمام افغان پناہ گزینوں کو کئی بار ڈیڈ لائنز دی جا چکی ہیں تاکہ وہ خود رضاکارانہ طور پر وطن واپسی اختیار کریں، تاہم اب مہلت کی آخری تاریخ گزرنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں۔


سمز کی بندش: ایک متنازع مگر مؤثر قدم

مہلت ختم ہونے کے ساتھ ہی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کے زیراستعمال موبائل فون سمز بند کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور نادرا کے تعاون سے کی جانے والی اس کارروائی میں ان تمام سمز کو غیر فعال کیا جا رہا ہے جو پی او آر کارڈز یا افغان شناختی دستاویزات پر جاری کی گئی تھیں۔

وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ غیرقانونی طور پر جاری ہونے والی یا افغان شہریوں کے زیرِ استعمال سمز نہ صرف قانونی بلکہ سیکیورٹی خطرہ بھی بن چکی تھیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پناہ گزینوں کو بنیادی رابطے کی سہولت سے محروم کر رہا ہے، جو کہ ایک بنیادی انسانی حق ہے۔


سیلاب زدہ افغان پناہ گزینوں کی دہائی: "ہم کہاں جائیں؟”

حالیہ سیلابی صورتحال کے باعث پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد کئی افغان پناہ گزین بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی جانب سے سوشل میڈیا اور ویڈیوز کے ذریعے یہ بیانات سامنے آئے ہیں کہ ان کا قیمتی سامان تباہ ہو چکا ہے، رہائش ختم ہو گئی ہے، اور اب وہ وطن واپسی کے قابل بھی نہیں رہے۔

اسلام آباد کے ارجنٹائن پارک میں قائم ایک عارضی کیمپ میں مقیم افغان پناہ گزین خاتون زہرہ حسینی (فرضی نام) نے وائس آف جرمنی اردو کو بتایا کہ وہ اور ان جیسے سینکڑوں افراد یکم ستمبر کے بعد شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ حکومت اب کیا کارروائی کرے گی۔ ان کے مطابق، ان کی تمام موبائل سمز بند ہو چکی ہیں اور اب وہ ایک پاکستانی دوست کی مدد سے رابطے میں ہیں۔


قانونی ماہرین کا مؤقف: واپسی آسان نہیں، زمینی حقائق مختلف ہیں

اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کراچی کے امیگریشن وکیل یاسر شمس کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے یہ فیصلہ عملی سطح پر بہت چیلنجنگ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ افغان پناہ گزین جو گزشتہ 20 سے 30 سال سے پاکستان میں مقیم ہیں، جنہوں نے پاکستانی شہریوں سے شادیاں کی ہیں، بچے پیدا کیے ہیں، اور کاروبار چلا رہے ہیں — ان کی واپسی نہ صرف انسانی سطح پر حساس معاملہ ہے بلکہ قانونی پیچیدگیاں بھی رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے کنونشنز کے تحت مہاجرین کو جبری واپسی سے تحفظ حاصل ہے، خصوصاً اگر ان کی جان یا آزادی کو وطن واپسی پر خطرہ ہو۔ "ہزارہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے، جنہیں طالبان سے شدید خطرات لاحق ہیں۔”


زمینی صورت حال: بے دخلی، بے دخلی، اور بے بسی

اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف علاقوں سے افغان پناہ گزینوں کو نکالا جا رہا ہے۔ کئی نے ارجنٹائن پارک اور دیگر عوامی مقامات پر کیمپ لگا لیے ہیں۔ شہریوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ان افراد کی حالت زار پر تشویش ظاہر کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر ان کے ساتھ نرمی برتی جائے۔

ایک افغان پناہ گزین نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "ہم نے یہاں زندگی بنائی، بچے پیدا کیے، محنت مزدوری کی، لیکن اب ہمیں ایسے نکالا جا رہا ہے جیسے ہم مجرم ہوں۔”


ماہرین کی رائے: حکومت کے پاس محدود آپشنز باقی ہیں

کچھ سیکیورٹی ماہرین اور سابق سفارتکار اس اقدام کو ایک "سخت مگر ضروری فیصلہ” قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک دہائی سے زائد عرصے سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، لیکن حالیہ سیکیورٹی چیلنجز، بالخصوص افغانستان سے وابستہ شدت پسند گروہوں کی سرگرمیاں، حکومت کو سخت فیصلے لینے پر مجبور کر رہی ہیں۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس عمل میں کئی انسانی و اخلاقی پہلو موجود ہیں، مگر ریاست کی ذمہ داری اپنی شہریوں کی حفاظت اور سیکیورٹی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔


آگے کا راستہ: مذاکرات، نرمی، یا سختی؟

فی الوقت یہ واضح نہیں کہ حکومت افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے مکمل طور پر سختی کرے گی یا کچھ مخصوص طبقات کے لیے نرمی برتے گی، جیسے کہ بیمار، بزرگ، خواتین، یا وہ افراد جن کی زندگیوں کو واپسی پر خطرہ لاحق ہو۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے اس حوالے سے فی الحال کوئی واضح پالیسی بیان سامنے نہیں آیا، جب کہ بین الاقوامی تنظیمیں جیسے UNHCR اور IOM بھی صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔


نتیجہ: انسانی المیہ یا سیکیورٹی مجبوری؟

افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ ایک بار پھر پاکستان کے لیے نازک موڑ پر کھڑا ہے — ایک طرف قومی سیکیورٹی، معیشت، اور داخلی استحکام کا سوال ہے، تو دوسری طرف انسانی حقوق، بین الاقوامی ذمہ داریاں، اور ہمدردی کا تقاضا۔

فیصلہ کن بات یہ ہوگی کہ آنے والے دنوں میں حکومت کیسے اس توازن کو برقرار رکھتی ہے — اور کیا ایک دیرینہ انسانی مسئلے کا حل محض بے دخلی کی صورت میں ممکن ہے یا پھر اس کے لیے ایک جامع، منصفانہ اور پائیدار پالیسی کی ضرورت ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button